اشاعتیں

مارچ, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط چھبیس 26

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط چھبیس 26 وہ دونوں یہونہی کھڑے تھے جب ابوالکلام اور شمیم آرا انکے پاس آۓ تھے ۔ " طہ پارٹی کا ارینجمنٹ وغیرہ بہت اچھا ہے ۔ سب بے حد تعریف کر رہے تھے ۔ " ابوالکلام مسکراتے اسے دیکھ رہے تھے جبکہ شمیم آرا تہذیب سے باتیں کرنے میں مصروف تھیں ۔ " جی شکریہ ۔ ماموں ۔اپنے کولیگز کے سامنے اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیۓ اتنا تو کرنا   پڑتا ہے ۔‌" وہ اپنے سابقہ پر اعتماد لہجہ میں بول رہا تھا ۔ " کافی خرچہ آیا ہو گا ۔ تمہیں اگر کچھ رقم چاہیۓ مطلب اگر کبھی ضرورت محسوس ہو تو بلا جھجھک پو چھ لینا ۔ " انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا تو طہ نے انہیں بہت غورسے دیکھا تھا ۔  " نہیں ماموں ۔میں نے کچھ رقم سیو کی ہو ئ تھی تو وہی کام آگئ ۔ " انہیں جواب دیتے وہ سوچ رہا تھا ۔ کبھی کسی زمانہ میں اس نے کبھی رقم مانگی بھی تو یہی ابوالکلام اکثر خشک انداز میں بات ٹال دیتے تھے ۔ وہ بالکل منع بھی نہیں کرتے تھے مگر خوشدلی سے دیتے بھی نہیں تھے ۔  آج وہ ان کا داماد بن بیٹھا تو ان کا انداز ہی بدل گیا ۔ واہ ۔ وہ کچھ سوچ کر خود ہی مسکرا اٹھا تھا ۔  "  خیر ۔ اب ہم

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط تیئیس

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط تئیس23  وہ فون ہاتھ میں پکڑےغائب دماغی سے بیٹھا رہا تھا ۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس نے واقعی مچتشم کی ہی آواز سنی تھی یا یہ اسکے کانوں  کو دھوکہ ہوا تھا ۔ " تم ہی یہ کام کر سکتے ہو طہ ۔مجھےتم سے ہی امید ہے ۔انکی سرگوشی سنائ دی ۔ ", تم تہذیب سے شادی کر لو ۔"  وہی سرگوشی اور وہ سناٹے میں اس سرگوشی کی بازگشت سننے لگا ۔ " مجھے تم سے ہی امید ہے ۔ تم ہی یہ کام کر سکتے ہو ۔" یہ آخری بازگشت تھی جو اس نے سونے سے پہلے سنی تھی۔  ******** " طہ ۔ میری بات سنو ۔ وہ اپنا آفس بیگ اٹھا کر باہر نکل ہی رہا تھا کہ اسے صابرہ بیگم نے روک لیا ۔ " جی امی ۔ " اس نے بیگ میز پر رکھا ۔ " تمہارے ابو بتا رہے تھےکہ  تم تہذیب سے شادی نہیں کرنا چاہتے ۔ " انکے انداز میں واضح خفگی تھی ۔ " امی ابھی تو میں آفس کو لیٹ ہو رہا ہوں ۔شام میں بات کریں گے. ۔وہ بیگ اٹھاتے ہوۓ بولا ۔ یقیناً امی اب اسکے انکار کو لیکر اس سے پوچھ گچھ کریں گی ۔  " ٹھیک ہے مگر شام تک۔ ہم سب تمہاری ہاں سننا چاہیں گے ۔ " امی نے گویا دھمکی دی ۔ " جی اور کچھ " وہ

گلبرگہ شہر ۔۔۔۔نانی کا گاؤں

  گلبرکہ شہر سے ہماری واقفیت بس اتنی ہے کہ جب کبھی گرمائ تعطیلات ملتیں ہمارا رخ گلبرگہ شہر  ہی کی طرف ہو تا کیونکہ وہ ہمارا ننھیال ہے ۔ جب بھی ہم گلبرکہ کی بات کرتے ہمارے ابو گلبرگہ کو  "گاؤں" کہہ کر ہماری والدہ محترمہ کو چڑاتے ۔ جس کا نتیجہ ہمیشہ  حسب توقع ہی نکلتا ۔ "  گلبرکہ بالکل بھی گاؤں نہیں کہلاتا ۔ شہر ہے شہر ۔ "   ," لیکن حیدرآباد کے مقابلے میں تو گاؤں ہی سمجھا جائیگا ۔ " ابو چڑانے کا سلسلہ جاری رکھتے ۔  " گلبرکہ شہر جسے سات گنبدوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ ریاست کرناٹکا کا ایک تاریخی شہر ہے ۔اور یہ بنگلور سے 623 کلو میٹر اور حیدرآباد دکن سے 200 سے زائد کلو میٹر  ہے ۔یہ آزادی سے قبل حضور نظام اور سلطنت آصفیہ کے زیر نگرانی ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا ۔اسی تاریخی شہر میں قلعہ گلبرگہ بھی واقع ہے ۔ یہ شہر بہمنی سلطنت کا پایہ تخت بھی رہا ہے ۔بہمنی دور میں یہاں پر اسلامی طرز  پر تعمیرات کی گئیں۔  ہماری والدہ بتانا شروع کر دیتیں اور ہم ہمہ تن گوش ہوتے ۔ ان اسلامی طرز و تعمیر پر مبنی عمارتوں پر زیادہ تر گنبد نظر آتے ہیں یہاں کئ بادشاہوں کے مقابر ،اولیاۓ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط بائیس

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط بائیس   تین مہینے بعد   ان تین مہینوں میں محتشم کی گمشدگی معمہ بنی رہی تھی ۔انکے گھر والوں نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دی تھی جس کا ابھی تک کوئ خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تھا ۔ ********* ۔ وہ میز پرفائلزرکھے انہیں الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ چہرے پر سنجیدگی تھی ۔جب نظیر صاحب وہاں آۓ تھے ۔ " طہ ۔  "   " جی ابا ۔ کیا بات ہے ۔ " اس نے قلم ایک جانب رکھ دیا تھا ۔ " ابوالکلام بھائ کی طبعیت بار بار خراب ہو رہی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے وہ بیٹی کی مستقبل کو لیکر بہت فکر مند ہیں "  " ابا یہ کوئ معمولی بات تو نہیں  بہت بڑی بات ہے ۔وقت لگے گا حالات کو معمول میں آنے میں ۔" اس نے کرسی کی پشت پر اپنا سر ٹکا دیا۔ " ہاں ۔لیکن ہمیں اس برے وقت میں ان کا ساتھ دینا چاہیۓ " انکے لہجے میں ہمدردی اور رحم کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ " ہم کیا کر سکتے ہیں ۔سواۓ دعا کے کہ یا تو محتشم بھائ آ جائیں یا پھر تہذیب کا کہیں اور اچھی جگہ رشتہ ہو جاۓ۔ " اس کے لہجے میں سادگی تھی ۔ " ہاں ۔لیکن‌طہ ابوالکلام بھائ نے تمہارا نام لیا ہے ۔ " وہ رک کر بول

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط اکیس

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط اکیس  " آپ تو یوں ہمت ہار گۓ ہیں جیسے کہ ہم مر گۓ ہیں ۔ آپ کے خیر خواہ ابھی موجودہیں ۔ " وہ اب انکے قریب آگۓ تھے اور قریب کی کرسی پر وہ خود بھی بیٹھ گۓ تھے ۔ " کیا کروں اکبر بھائ ۔میری تو ہمت ہی ٹوٹ گئ ۔ آپ سب کی موجودگی سے ڈھارس بندھی ہے ۔ ورنہ " ابوالکلام اپنے سینے پر ہاتھ رکھے بے چینی سے بولے تھے ۔ " اگر آپ ہاں کریں تو میں ابھی اور اسی وقت تہذیب کو اپنے اشعر کی دلہن بنا لوں ۔ " اکبر سیٹھ نے فوراً اپنا مدعا پیش کیا تھا ۔ ا ن کی بات پر ابوالکلام چونک گۓ تھے ۔ اور ان کی نظریں سامنے اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف اشعر پر پڑی تھیں ۔اسکے چہرے سے کچھ بھی فکر مندی ظا ہر  نہیں ہو رہی  تھی ۔وہ بہت آرام دہ انداز میں  ہنستے مسکراتے بات کر رہا تھا ۔ اس موقعہ پر بھی وہ ابوالکلام کے پاس نہیں آیا تھا نا ہی ان کی دل جوئی کی تھی ۔ ۔ " اکبر بھائ ۔میں اس وقت اتنا الجھا ہوا ہوں کہ کوئ بھی فیصلہ نہیں لے سکتا ۔ اس لیۓ ابھی تو کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ ‌‌  اس وقت  میں کوئ بھی عجلت بھرا  فیصلہ لینے کے موقف میں نہیں ہوں ۔ " وہ بردباری سے بولے تھ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط بیس

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط بیس  ابھی دلہا نہیں آیا تھا جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا ۔نکاح کا وقت ٹھیک آٹھ بجے کا تھا ۔اب دس بج رہے تھے۔ ابوالکلام کو تشویش ہوئ تو انہوں نے طہ کو ہی فون ملایا ۔وہ ابھی فلیٹ میں ہی رکا تھا ۔ ہیلو ۔طہ ۔محتشم نکلے یا نہیں ۔ " انکی بات پر طہ بھی متحیر رہ گیا ۔ " لیکن ماموں ۔محتشم بھائ تو یہاں سے دو گھنٹے پہلے ہی نکل گۓ تھے ۔ابھی تک نہیں پہنچے ؟ " وہ خود  سوال کرنے لگا ۔ " دو گھنٹے پہلے ۔لیکن ابھی تک پھر کیوں نہیں آ ۓ۔ کیا ان کا بینڈ باجے کا بروگرام تھا ۔ " ابوالکلام نے ناگواری سے پوچھا تھا ۔ وہ  شادی میں گانے بجانے کے سخت خلاف تھے ۔ " نہیں ۔محتشم بھائ نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا "  تبھی کسی نے پکارا تھا ۔ " دلہے کی کار آگئ ۔ " ابوالکلام نے فون کاٹ دیا تھا ۔ اور خود دلہے کا استقبال کرنے جا پہنچے تھے ۔  لیکن ان میں محتشم نہیں تھے ۔ انکے تینوں دوست سر جھکاۓ مجرموں کی طرح کھڑے تھے.   " کیا ۔ہوا ۔ محتشم کہاں ہیں " ابوالکلام نے ان سب کو یکساں پوچھا تھا ۔ " انکل۔ ہم تینوں وقت پر نکل گۓ تھے ۔لیکن آدھے راستے

میرے ہم نوا قسط ۔۔۔انیس

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط انیس  " اسلام علیکم " رابعہ بیگم کے گھر کی دہلیزہپر کھڑے ابوالکلام کو دیکھ کر اکبر سیٹھ کے گھر میں ہلچل سی مچ گئ تھی۔ امینہ بھاگ کر کرسی لے آئ تھی جبکہ رابعہ بیگم تخت پوش ٹھیک کر نے لگیں ۔ اکبر سیٹھ کو بھی خوش گوار حیرت ہو ئ تھی انہیں یوں اپنے گھر دیکھ کر ۔ " وعیلیکم اسلام ۔ابوللکلام بھائ ۔ آئۓ ۔یوں دروازہ پر کیوں  کھڑے ہیں ۔ " انہوں نے بڑھ کر ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا تھا ابوالکلام کی شخصیت بارعب سی تھی ۔ وہ نا بلا ضرورت کسی کے گھر آتے تھے نا بلا ضرورت کسی پر کسی قسم کا بوجھ ڈالتیے تھے ۔ان کا خود چل کر گھر آنا  بہت بڑی بات تھی ۔ وہ مسکراتے اندر آۓ تھے ۔ چہرے پر ایک مکمل خوشی کا احساس تھا ۔ " دراصل آپ سب کو ایک خوش خبری دینے آیا ہوں ۔ اپنی بیٹی تہذیب کی شادی کی۔ خوش خبری "۔ وہ ان لوگوں کے دلوں کی کیفیت سے بے خبر اپنی بات مکمل کر چکے تھے ۔ ایک لمحے میں سارے گھر میں خاموشی چھا گئ تھی ۔ سب جیسےہسکتہ میں آ گۓ ہوں ۔ " تہذیب کی شادی لیکن کسکے ساتھ طۓ کردی ۔ " رابعہ بیگم نے اپنے آپ کو بہت جلدی سنبھال لیا تھا ۔  " اپنے محتشم

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط اٹھارہ

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔ " منفی خیالات ہی چھاۓ رہتے ہیں تمہارے حواسوں پر ۔ زندگی میں ہر قسم کے حالات آتے رہتے ہیں اچھے برے ۔خوشگوار ،نا خوشگوار ۔لیکن انہیں خود پر مسلط نہیں کر لینے چاہیۓ۔ دن بدلتے دیر لگتی ہے کیا ۔ " وہ اسے نرم لہجہ میں سمجھا رہے تھے ۔  " اب تک تو زندگی نے اپنا برتاؤ تلخ ہی رکھا ہے ۔ تو تلخی میرے لہجے میں اتر گئ ہے ۔ وہ شاعر کہتا ہے ۔نا  " دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں  جو کچھ دیا ہے وہی لوٹا رہا ہوں میں  اس کے کہنے پر محتشم اسے افسوس سے دیکھ کر رہ گۓ ۔ " آگے کیا ارادے ہیں ۔ ابھی پڑھنا ہے یا ۔۔۔"  " پڑھنا تو ہے مجھے ۔لیکن ابا کی نوکری سے ملنے والے روپیۓ کافی نہیں ہیں ۔گھرکے اخراجات گھر کا کرایہ ۔اظہار کی فیس اور اربیہ کی شادی ۔تو مجھے جلد از جلد نوکری کرنی ہے ۔ پڑھتے ہو ۓ نوکری کرنا چاہتا ہوں ۔ وہ اسٹیرینگ وہیل پر اپنا ہاتھ رکھے کہہ رہا تھا ۔ وہ دونوں تہذیب کی موجودگی کو جیسے فراموش کر چکے تھے ۔ تہذیب نے بھی مداخلت کا نہیں سوچا تھا ۔ اس دن کی خجالت اسے بھولے نہیں جا رہی تھی ۔  " ماسٹرز کے بعد ہی نوکری کرنا چاہ رہے ہو یا ۔۔۔" مح

حیدرآباد۔ ایک شہر ہزار داستان

حیدرآباد ۔۔ایک شہر ہزار داستا ن  آج ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں شہر حیدرآباد اور اس سے جڑی کچھ خوبصورت باتیں ۔۔ شہر حیدرآباد ایک ایسا شہر جو دو  عشق کر نے والوں کی وجہہ سے وجود میں آیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ قلی قطب شاہ اور  بھاگ متی کی عشق کی داستان اس شہر سے وابستہ ہے ۔ اور  اس داستان میں کتنی حقیقت ہے اس سے قطع نظر اسکے وجود پر نظر ڈالیں تو یہ شہر تو محبت اور محبت کرنے والوں کا شہر ہے ۔ ایسا شہر جو محبت کے نام پر بنا ہو ۔وہ محبت سے خالی کیسے ہو سکتا تھا ۔ جسکی بنیاد ہی محبت پر رکھی گئ تھی ۔ اس نے تو بسنا ہی تھا ۔پھلنا پھولنا ہی تھا۔ اگر اس شہر کی بنیاد محبت تھی تو اسکی  بنیاد مملکت دکن کے قطب شاہی سلطنت کے پانچویں فرمان روا محمد قلی قطب شاہ نے  1591 میں رکھی  تھی اور یہ دعا کی تھی کہ  میرے شہر کو لوگوں سے معمور کر  اور یہ دعا اس شہر کو یوں راس آئ کہ اس شہر میں جو آ گیا وہ یہیں بس گیا ۔اس شہر کی محبت اسے کہیں اور جانے کے قابل نہیں چھوڑتی ۔                                                                  ۔  2 جون 2014  کو ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش کو الگ کر کے جس ریاست کا قیام عمل میں ل

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط سترہ

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط سترہ  " مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ابوالکلام سے اشعر کے سلسلے میں بات کر لینی چاہیۓ ۔ " اکبر سیٹھ اپنے پلنگ پر گاؤ تکیہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے ۔ انکے چہرے پر ہمیشہ کی طرح کرختگی سی چھائ ہوئ تھی جو ان کی شخصیت کا خاصہ تھی ۔ " لیکن ابو ۔اشعر تو ابھی پڑھ رہا ہے ۔ نا اس نے اپنی تعلیم مکمل کی نا ہی نوکری لگی ۔آپ کس خوبی پر اس کا رشتہ مانگیں گے ۔"  یہ شاہینہ تھیں جو ذی شعور تھیں ۔ ان کی ہی ہمت تھی جو باپ کے سامنے زبان کھو لتیں تھیں ۔ " یہ بات تو صحیح ہے ۔ اس موقعہ پر جبکہ اشعر کے پاس نا ڈگری ہے اور نا روزگار ۔تو ماموں تو" کھٹ "سے انکار کر دیں گے ۔ " ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں کریں گے ۔ ۔ مراد نے بھی اپنی بیوی کی تائید کی ۔ " دو سال ٹہر جاتے ہیں ۔ ابھی تہذیب کی بھی پڑھائ مکمل نہیں ہوئ ۔ اور ماموں تو تعلیم مکمل ہونے تک شادی کریں گے نہیں ۔  اس لیۓ انتظار کرنا ہی بہتر ہو گا ۔"  رابعہ بیگم ان سب کی باتیں خاموشی سے سن رہی تھیں ۔جبکہ اکبر سیٹھ کچھ متامل سے لگ رہے تھے ۔ " وہ سب ٹھیک ہے ۔ مگر اشعر ان دو سالوں میں اپنی تعلیم مکمل کر

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط سولہ

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط سولہ  " اپنے شوہر کو ،سسرال والوں کو سمجھانا چاہیۓ کہ ۔۔۔"  " ماموں ۔ رخشی آپا بہت ڈرپوک ہیں وہ تو تیز اواز میں بات تک نہیں کر پاتیں ۔ اگر یہ سب انکے ہاتھ میں ہو تا تو وہ یوں بے بس ہو کر نا آتیں ۔ " طہ کو بولنا پڑا تھا ۔ابواکلام کی بات کاٹ کر ۔ " کب تک ایسے ڈر ڈر کر جیئۓ گی ۔ اسے مضبوط بننا چاہیۓ ۔"  ابوالکلام کے لہجے کی تلخی نے طہ کو بددل سا کر دیا ۔ " ٹھیک ہے ۔ماموں۔اب  میں چلتا ہوں ۔ " وہ اچانک اٹھ گیا تھا ۔ محتشم نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ وہ ان دونوں کے بیچ جان بوجھ کر دخل نہیں دے رہے تھے ۔ مگر  طہ جس کے چہرے پر دبا دبا غصہ تھا کو جانے کے لیۓ اٹھتے دیکھ کر انہیں مداخلت کرنی پڑی ۔ " طہ ۔ اس طرح اٹھ گۓ ۔ بیٹھو تو " انہوں نے اسے بٹھا نا چا ہا تھا ۔  " نہیں محتشم بھائ ۔ میں چلتا ہوں ۔ " وہ ابوالکلام پر ایک سرد نظر ڈالتے اٹھ گیا تھا ۔ابوالکلام نے کچھ نہیں کہا تھا ۔طہ باہر چلا گیا تھا ۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں ٹہری تھی ۔ اسے اب تک شرمندگی سی محسوس ہو رہی تھی کہ اس نے کیوں اس طرح ان دونوں کے بیچ مداخلت کی تھ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط پندرہ

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط پندرہ   وہ برآمدے میں کرسی ڈالے  ہاتھ میں  کتاب لیۓ بہت غور و خوض سے پڑھ رہی تھی ۔ اپنا پسندیدہ شاعر کا کلام پڑھتے وہ اکثر اپنے آس پاس کی دنیا سے یو نہی کٹ جاتی تھی ۔ ہلکے نیلے رنگ کے کرتے پر سفید دوپٹہ کندھوں سے ہوتے نیچے جھول رہا تھا ۔ جب اسے کسی کے کھنکھا رنے کی آواز آئ تھی ۔ اس نے چونک کر سر اٹھا یا تھا تو محتشم دونوں ہاتھ باندھے کھڑے تھے ۔ محتشم بھائ آپ ۔ اسلام علیکم ۔ " وہ کرسی سے اٹھ گئ تھی ۔ ایک بجے کا وقت تھاا عام طور پر اس وقت کوئ نہیں آتا تھا ۔اس لیۓ ابوالکلام بھی آرام کر رہے ہو تے تھے ۔ " جی ۔ کافی غور و خوض سے پڑھی جا ری تھی  کتاب " انہوں نے کتاب کو دیکھا ۔ جس پر فیض احمد فیض لکھا نظر آ رہا تھا ۔ " فیض کی بڑی مداح ہو نگی آپ تو ۔ " وہ مسکراتے اسے دیکھ رہے تھے ۔  "  جی ۔فیض احمد فیض کو کون پسند نہیں کرے گا ۔ آپ بھی پڑھتے ہیں کیا ۔ " وہ اب جانے کے لیۓ قدم بڑھا نے لگی تھی ۔ " میں تو ہر اچھے شاعر کا مداح ہوں ۔اگر وہ نامور نا ہو ۔تب بھی ۔ " وہ اسکے ہاتھ سے کتاب لے چکے تھے ۔ " پڑھ سکتا ہوں ۔ " انکے سوالیہ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط چودہ

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط چودہ  ان تمام سے مل کر محتشم ابوالکلام کے پاس جا کر ٹہر گۓ تھے ۔ " چلیں ۔ ہم بھی اب جاتے ہیں ۔ " محتشم اپنے ابو کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے ۔  " خدا حافظ بیٹے ۔ آتے رہو ۔یہاں پر  ۔اچھا لگے گا ۔ " ابوالکلام انکے اور انکے والد سے گلے مل کر کہہ رہے تھے ۔ " جی ۔ماموں ضرور ۔ " وہ مسکراتے سب سے ہاتھ ملا  کر اب جانے کے لیۓ قدم بڑھا رہے تھے ۔ دراز قد اور وجیہہ سے محتشم کے لیۓ ہر نظر میں پسندیدگی تھی ۔ ۔ ہر نظر میں ستائش تھی ۔ ابوالکلام  کافی دیر تک انہیں جاتا دیکھتے رہے تھے جنکے دیکھنے کو اکبر سیٹھ نے بہت غور سے دیکھا تھا ۔ ********  " امی ۔کیا صالحہ خالہ بہت خوبصورت تھیں ۔" امینہ رابعہ بیگم کے قریب بیٹھی تھی ۔ وہ کل کی دعوت کو ہی ڈسکس کر رہے تھے ۔  " ہاں ۔ اسکی خوبصورتی کے تو چرچے ہی چرچے تھے ۔ بے مثال حسن کی مالک تھی وہ ۔ " رابعہ بیگم کل پہنے گۓ کپڑے تہہ کر رہی تھیں ۔ " اوہ ۔اچھا تبھی محتشم بھائ بھی اتنے خوبصورت ہیں ۔ " امینہ نے اپنی انگلی اپنے گال پر رکھتے کہا تھا ۔ " امینہ ۔۔" اکبر سیٹھ کی کرخت آواز بر

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط تیرہ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط تیرہ  آج ابوالکلام کے بنگلہ میں رونقیں اتر آئ تھیں ۔ رابعہ صابرہ صبح ہی سے موجود تھیں ۔ نوکر چاکر یہاں وہاں کاموں میں مصروف پھر رہے تھے۔ سامانوں کی اٹھا پٹک چل رہی تھی ۔ عابد ۔ لان کی صفائ میں  لگا ہوا تھا ۔ جبکہ اختری شمیم آرا کے ساتھ باورچی خانے میں مصالحے وغیرہ بھوننے میں مصروف تھیں ۔ تہذیب خشک میوہ جات کی بڑی پرات لیۓ بیٹھی تھی ۔ اسے میوے تراشنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ اربیہ اور امینہ بھی اسکے ساتھ ہی تھیں ۔ ان کے ہاتھوں میں بھی میوے تراشنے کی چھریاں تھیں ۔ یہ ایک خاندانی تقریب  تھی ۔ جس میں باہر کا کوئ بندہ شریک نہیں تھا ۔نظیر صاحب اور اکبر سیٹھ بھی مہمان خانے میں بیٹھے تھے ۔ابھی محتشم اور انکے ابو وغیرہ نہیں آۓ تھے ۔ " اور سنائیے  ۔نظیر صاحب ۔ کیسی چل رہی ہے ۔ " اکبر سیٹھ نے ہنس کر پو چھا ۔  " بھئ ۔ گذر رہی ہے جیسی بھی ۔ " نظیر صاحب نے انکساری سے کہا ۔  " میں نے سنا رخشی کے سسرال والوں نے آپ سے کچھ روپیوں کی ڈیمانڈ کی ہے ۔ "۔ " ڈیمانڈ تو نہیں ہے  دراصل انہیں گاڑی خریدنی ہے تو کچھ مدد چاہیۓ تھی ۔ " نظیر صاحب کچھ دبے دبے لہج

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط بارہ

 میرے ہم نوا قسط بارہ  نوارد اندر آ چکا تھا ۔تہذیب کو جھک کر دیکھنا پڑ رہا تھا ۔وہ اونچے قد والا لگ رہا تھا ۔ جسکے بال ایک سائڈ میں نفیس انداز میں جماۓ گۓ تھے ۔  " جی آپ کون ہیں ۔ " وہ شاخ پر بیٹھے بیٹھے یوں پوچھ رہی تھی جیسے نو وارد سے انٹرویو کر رہی ہو ۔ نو وارد کچھ حیران پریشان لگ رہا تھا اور دا ئیں بائیں سر ہلاتے آواز کی سمت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ " مجھے ابوالکلام صاحب سے ملنا تھا ۔ وہ ہیں " نو وارد نے اپنی آواز اونچی کی تھی ۔  " وہ اندر ہیں ۔ میں بلاتی ہوں ۔ " وہ یہ کہتی اپنے پیر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر رکھتے اترنے لگی تھی ۔آخر میں اسے کودنا پڑا تھا زمین تک پہنچنے کے لیۓ۔  نو وارد کچھ ڈر کر پیچھے ہٹا تھا ۔پھر اسے دیکھا تھا ۔ لانبی سی سبز رنگ کی فراک بہنے اپنے بالوں کو ایک کلپ میں قید کیۓ وہ اپنے دوپٹہ کو پکڑے ٹہری تھی جس میں تازہ توڑی گئ کیریاں تھیں ۔  " اوہ ۔ تہذیب یہ تم ہو ۔ " نو وارد اسے پہچان چکا تھا جبکہ وہ ابھی تک اسے پہچان نہیں پائ تھی ۔بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے بس اسے گھو رے جا رہی تھی ۔ " مگر آپ کون مو صوف ہیں ۔ "  "

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط گیارہ

 میرے ہم نوا ۔۔قسط گیارہ  وہ جب کمرے میں داخل ہوا  تو نظر سیدھا بیڈ پر ہی گئ تھی ۔ وہ گھنگھٹ ڈالےجھکے سر کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس نے پہلے کھنکھارا تھا اور پھر بیڈ کے قریب رکھے صوفے پر بیٹھ گیا ۔ " آپ کو پتا ہو گا کن حالات اور کیفیات میں یہ نکاح یہ رخصتی عمل میں آئ اور میں حقیقتاً اس سب کے لیۓ تیار نہیں پتھا اور نا ہوں ۔ " وہ رکا جیسے دیکھنا مقصود تھا کہ وہ بغور سن رہی ہے یا نہیں ۔  اس نے اپنے جھکے سر کو تھوڑا سا اونچا کیا اور اس پر ایک نظر ڈالی تھی ۔ " اگر بات ماموں کی عزت پر نا آتی تو ۔۔  " وہ سمجھ گئ کہ وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا اور کیا جتانا چاہ رہا تھا ۔ وہی احسان جتانے والا انداز تھا ۔ اس کا دل چاہا وہ سب نوچ کر پھینک دے ۔ آخر کب تک اسے یہ بتا یا جاۓ گا کہ وہ ان وانٹڈ ہے اور اسکے باپ نے اس پر زبردستی مسلط کر دیا ہے۔ پہلی رات ہی اسکے دل میں طہ کے لۓ گرہ پڑ گئ ۔ " اگر آپ چینج کر نا چاہ رہی ہیں تو میں باہر چلا جاتا ہوں ۔آپ چینج کر لیں ۔رخشی آپا  کپڑے رکھ گئ ہیں ۔ " وہ اٹھتے ہوۓ بو لا ۔ وہ چپ چاپ اٹھی تھی ۔ اسکا دوپٹہ سرک گیا تھا ۔اور دلہنوں کے مخصوص لباس میں

میرے ہم نوا ۔۔۔دسویں قسط

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط د س۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا ۔اسکا دوست اپنی گاڑی لیکر باہر کھڑا تھا ۔رات بہت گہری تھی ۔ ابوالکلام کے بنگلہ بھی سناٹوں میں گھرا تھا ۔ نوکر چاکر بھی اپنے کوارٹرز میں جا چکے تھے۔ وہ تہذیب کے کمرے سے واقف تھا ۔اور اب اپنے قدم دھیرے دھیرے بڑھا رہا تھا ۔ اسے ابوالکلام یا شمیم آرا سے خوف نہیں تھا ۔ وہ عمر کی اس منز ل  پر تھے جہاں اکثر نیند کی گولیاں کھا کر مدہوش ہو جاتے ہیں ۔ ۔" یہ میرا فیصلہ کن وار ہو گا ۔ اس کے بعد جیت صرف میرا مقدر ہو گی ۔ ایک رات کے لیۓ بھی تہذیب کو غائب کر دوں تو دونوں خاندان بھر سے منہ چھپاتے پھریں گے ۔ " ایک زہریلی ہنسی ہنستے ہوۓ وہ  بہت اطمینان سے تہذیب کے کمرے کی کھڑکی کی طرف بڑھا تھا اور اس پر چڑھنے کے لیۓ اپنا پیر اس کھڑکی کی پٹ پر رکھنا چاہا تھا۔  مگر اس سے پہلے  کسی نے پیچھے سے اسکی پیتھ پر زوردار لات ماری تھی اور اس سے پہلے کہ اسکی چیخ نکلتی اسکے منہ کو ایک موٹے کپڑے سے  ڈھک دیا گیا تھا ۔ وہ ایک بے بس پرندے کی طرح پھڑ پھڑا کر رہ گیا ۔  اس نے ہاتھ پاؤں زور زور سے ہلانے کی کوشش کی مگر مقابل کے مضبوط بازؤں میں وہ بے بس ہو گیا ۔تھ

میرے ہم نوا ۔۔۔۔۔نویں‌قسط

میرے ہم نوا ۔۔۔نویں قسط   ابوالکلام مہمانوں کی لسٹ پکڑے ہر ایک نام پر ٹک کرتے جا رہے تھے ۔ نظیر صاحب کے گھر سے مہمانوں کی جو  لسٹ  آئ تھی وہ بہت مختصر تھی ۔ انکا اپنا حلقہ احباب بہت وسیع تھا لیکن حالات کے مدنظر انہوں نے بھی مہمانوں کی تعداد کم ہی رکھی تھی ۔ طہ نے ہر کام میں سادگی کا ہی کہا تھا تو وہ بھی اس معاملہ میں اس سے متفق تھے ۔ تہذیب کو مہندی لگائ جا رہی تھی۔ جس کے چہرے پر خوشی کے جذبات سے زیادہ انہونیوں کا ڈر زیادہ تھا ۔ وہ باپ کے کمرے تک  کئ بار جا کر واپس پلٹ آئ تھی ۔ انکے رعب دار چہرہ کا  سامنا  وہ نہیں کر پارہی تھی ۔دوسری طرف شمیم آرا تھیں جو کہ دل سے سارے کاموں میں جوش و خروش سے حصہ لے رہی تھیں ۔ ****** آج وہ گھر پر تھا ۔ ٹی  وی کھولے وہ فلم دیکھ رہا تھا ۔ ٹی وی اسکرین پر تشدد اور مار دھاڑ والے سین بار بار آ رہے تھے ۔ وہ چاۓ کا کپ ہاتھوں میں لیۓ فلم کا لطف لے رہا تھا ۔ تبھی دروازہ کی بیل ہوئ تھی ۔ اس وقت گھر میں کوئ نہیں تھا ۔  ٹیبل پر ریموٹ  رکھ کر وہ دروازہ کھولنے گیا تھا ۔ " تم ۔۔" دروازہ پر عابد کو دیکھ کر اسے حیرانی ہوئ۔  " اشعر بھائ وہ تو میں یہ رقعہ ۔م