اشاعتیں

جولائی, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

رم جھم بارش۔۔۔

 رم جھم بارش  جس وقت میں بس سے اتر رہا تھا اس وقت میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں میں  مکمل بارش میں بھیگ کر ماموں کے گھر پہنچوں گا ۔ جس وقت میں میں اپنے گاؤں کی بس سے اترا اس وقت رم جھم‌بارش برس رہی تھی ۔ماموں کا گھر زیادہ دور تو نا تھا ۔اس لیۓ میں نے اپنا چھوٹا سا اٹیچی کیس ہاتھوں میں لے لیا اور پیدل ہی گھر کے لیۓ نکل پڑا ۔لیکن دو قدم بھی نا چل پایا اور رم جھم بارش تیز طوفانی بارش میں بدلنے لگی ۔ میں نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کرلی ۔ ماموں کا گھر قریب تھا لیکن ایسی گلیوں میں تھا جہاں زرا بارش ہو ئی اور گلیاں جھیل بن جاتیں ۔  ٹپ ٹپ ٹپ ۔۔۔اتنے زور سے بارش کے قطرے گرنے لگے کہ جی چاہا کہ" اب بس ۔آٹو کر لیتا ہوں ۔بھلے سے کرایہ زیادہ مانگیں گے مگر صحیح سلامت گھر تو پہنچ جاؤں گا" ۔ لیکن پھر ماموں کا خیال آیا ۔اگر انہیں پتا چل گیا کہ میں تین گنا کرایہ دے کرگھر پہنچا ہوں تو ان سے کچھ بعید نہیں کہ ںہ پورے مہینہ کا راشن بند کردیں  ۔کہ "جتنے پیسے تم زیادہ دے آۓ ہو اتنے میں تو تمہارا سارا مہینہ کا خرچہ چل جاتا ۔۔" "نمک کے تو نہیں تھے جو زرا سی بارش م
می رقصم  می رقصم می رقصم  دل رقصم دل رقصم  آج سے بیس سال پہلے ۔۔۔ پہلا افسانہ پاکیزہ آنچل میں شائع ہوا تھا ۔اس وقت دل یہی کہہ رہا تھا ۔ می رقصم می رقصم  اخبارات میں مضامین ،مختصر افسانے شائع ہونا شروع ہوۓ تب بھی دل کی یہی آواز تھی ۔ می رقصم می رقصم  افوہ ۔۔۔۔لیکن‌مضامین افسانہ شائع ہونا الگ بات ۔ دل چاہتا تھا ۔اس سے کچھ پیسے بھی کماۓ جائیں  لیکن  اردو اور اردو داں طبقہ ۔۔۔ایک پھوٹی کوڑی بھی کما نا سکے ۔ اور اور  اور پھر آج سے ایک سال پہلے گوگل سرچ کر پرتلپی مل گیا ۔لکھا تھا ۔آپ یعنی ہم لکھ کر کما بھی سکتے ہیں ۔رائٹرز لاکھوں کما رہے ہیں ۔تو آپ کیوں نہیں ۔ آپ بھی پرتلپی جوائن کریں ۔اور لاکھوں کمائیں ۔ تب پھر دل کی وہی حالت ۔ می رقصم می رقصم ۔ جھٹ جوائن کر لیا ۔اور شیخ چلی بن کر ایک انڈے سے دو ،دو سے چار ،اور پھر سو ،ہزار ،دس ہزار ،اور پھر لاکھ چوزوں سے انڈے اور انڈوں سے چوزے ۔۔وہی دل تھا اور وہی خواب ۔۔ لیکن جب حقیقت کھلی ۔تب پتا چلا ۔ دل کے  بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ۔  پرتلپی اکاؤنٹ میں سولہ روپے اٹھارہ پیسے پڑے ہیں پچاس روپے ہونے تک بنک سے نکال بھی نہیں سکتے ۔ہاۓ ری قسمت ۔ کل تک
دنیا سے بیزار ہوں میں  اپنی دنیا سے تو نہیں لیکن پرتلپی کی دنیا سے ضرور بیزار ہوگۓ ہیں ۔ جسکو کون‌چلا رہا ہےیا جو پرتلپی کو چگا رہا ہے وہ ضرور دنیا سے بیزار ہو گیا ہے ۔یعنی کہ حد ہو گئ۔ آپ کو مقابلہ کے لیۓ اکسایا جاتا ہے لکھنے کے لیۓ بھئ کشتی لڑنے کے لیۓ نہیں ۔لیکن‌نتائج ۔۔۔۔۔نتائج آتے آتے بچے جوان اور جوان بوڑھے ہو نے لگتے ہیں ۔ نتائج کی تاریخ تو یوں دیتے ہیں جیسے کہ بڑے پابند ہوں ۔ اور نتائج کے انتظار میں ہم‌جیسے خود ساختہ رائٹر لکھنا ہی ترک کر دیتے ہیں ۔کیا فائدہ لکھنے کا جب رزلٹ اتنی دیر سے آۓ۔ اور آۓ تو سبحان اللہ ۔ اردو  تامل ہندی اور نجانے کن کن زبان میں لکھنے والوں کو شامل کر لیا جاتا ہے ۔کیوں بھئ صرف اردو والوں کو لیکر بھی تو نتائج نکالے جا سکتے تھے ۔ایسی کیا افتاد آپ پر آ پڑی کہ سبھی زبان کے رائٹرز کو لیا اور مشترکہ انعام کے مستحق قرار دیا۔  اب زرا کوانز کو لیں ۔جو ایک فین اپنے پسندیدہ رائٹر کو دیتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ بھی دے تب بھی وہ بمشکل دس بیس روپیۓ ہوتے ہیں ۔ ہمارے اردو رائٹرز کیا اب اتنے گۓ گزرے ہیں جو ان دس بیس روپیوں کے لیۓ فینز کی منتیں کرتے پھریں اور پھر انکے دیے

تیرے لیۓ ۔۔۔پارٹ ٹو

 تیرے لیۓ ۔۔۔پارٹ ٹو ۔ "رحیمہ ۔۔۔رحیمہ تیری ماں مر گئ "۔باہر کھیلتی رحیمہ کے کانوں میں یہ آواز آئ تو رحیمہ کی سمجھ ہی نہیں آیا کہ ماں کیسے مر جاتی ہے ۔ وہ آٹھ سال کی بچی اس نے تو ابھی ابھی زندگی کو دیکھنا شروع کیا تھا اور اب لوگ کہہ رہے تھے کہ اس کی ماں مر گئ۔  ماں ۔۔ماں۔وہ تو ہر بات کے لیۓ ماں کو دیکھا کرتی تھی ۔ماں یہ کر دوں ۔ ماں وہ کردوں ۔  ماں یہ کیا ہے ۔ اور ماں اس کی ہر بات پر مسکراتے مسکراتے جواب دیا کرتی تھی ۔اور اب وہ ماں کی لاش کے پاس بیٹھی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ اور دل ہی دل میں ماں سے پوچھ رہی تھی ۔ "ماں ۔یہ موت کیا ہو تی ہے۔ " اور ماں نے تو نہیں بتایا مگر دنیا نے بتادیا کہ موت کیا ہو تی ہے ۔اور ایک ماں کے مر جانے سے کتنے لوگ بن موت مر جاتے ہیں ۔ ماں ڈلیوری میں مرگئ تھی اس لیے وہ شہید ہو گئ ۔تھی لیکن جو بچ گئ تھی وہ زندہ درگور ہو گئ تھی۔  اباپ  نے دوسری شادی کر لی ۔ماں نے آنکھیں بند کر لیں تو باپ نے آنکھیں ہی پھیر لیں ۔اس سے۔اور وہ ماں کو مردہ سمجھتے سمجھتے اب باپ کو بھی زندہ سمجھنا چھوڑ چکی تھی۔  ا"اے رحیمہ" ۔اس کی سوتیلی ماں چیخ اٹھتی ۔ "