اشاعتیں

 شام کے اداس ساۓ  ہاسپٹل کی دیواروں پر آہستہ آہستہ سے اتر رہے تھے ۔ اور وہ ہاسپٹل کے ایک کمرے میں اپنے نو مولود بیٹے کو سینے سے لگاۓ لیٹی تھی ۔ ملگجے اندھیرے میں  ،دواخانے کی مخصوص مہک سے بھرے اس کمرے میں اپنی ہی سوچوں میں غلطاں،لیکن  ذہن بار بار نواز کی طرف جا رہا تھا ۔   ‌"وہ کیوں نہیں آیا ۔ آج تیسرا دن ہو گیا اور وہ نہیں آیا ۔‌صرف پہلے دن بیٹے کی خبر سن کر خوشی سے نہال چلاآ یا تھا ۔ اور اس کے بعد پلٹ کرخبر تک نہیں لی تھی ۔۔‌ "کیا صرف وہ ماں  بنی تھی ۔ نواز باپ نہیں بنا۔ تھا ۔ ۔ یا شاید نواز کبھی باپ بنا ہی نہیں تھا ۔ وہ صرف اس ننھے وجود کو دنیا میں لانے کا سبب بنا تھا ۔ اور شاید اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔ وہ کرب سے سوچ کر رہ گئ ۔‌ وہ جانتی تھی کہ وہ کیوں نہیں آیا ۔ اور یہی بات اسے گہری تکلیف میں مبتلا کر رہی تھی ۔‌ اس کے ساتھ ہی صبح ڈیوٹی پر آئ نرس کی ان باتوں پر اس کا  دھیان گیا جو وہ اس کے کمرے میں آکر کرکر چکی تھی  ۔ بلکہ وہ چلا رہی تھی ۔‌۔ "اے اماں ۔ آج تیسرا دن ہو گیا اور تم نے اب تک ہاسپٹل کا بل پے نہیں کیا ۔پتا نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں ۔ ارے جب ہاسپٹل ادا کرنے

جانا کہاں ہے ۔

 حیدرآباد ایک بڑا شہر ہے ۔ اتنا بڑا کہ آپ آسانی سے ایک شہر میں کئ شہر گھوم  سکتے ہیں ۔ اب ہم یہاں رہ تو سالوں سے ہیں لیکن  ہماری تساہل پسندی کہ یہاں کے راستے گلی کوچے سے چنداں واقف نہیں  ۔ اس میں ایک وجہہ میاں کے ساتھ ہمیشہ گاڑی پر ٹنگے جانے کی بھی ہے جس کی وجہہ سے   راستے یاد نہیں رہتے ۔ گلیاں بھول جاتے ہیں ۔ ایک گلی سے آتے ہیں اور اکثر دوسری گلی میں جا نکلتے ہیں۔ اور اب حیران کہ کہاں آگۓ ۔  اب آپ کہیں گے کہ کس نے کہا تھا ہمیشہ گاڑی پر ہی جاؤ ۔‌تو کبھی کبھار یونہی پیدل یا آٹو میں بھی جایا جا سکتا ہے ۔ تو جناب جا تو سکتے تھے مگر کیوں جائیں ۔‌جب آپ کے پاس سہولت ہے تو کیوں جائیں  آٹو رکشے کے دھکے کھانے ۔ تو یوں سالوں گذرنے کے باوجود اپنے گھر سے چار مینار تک کا راستہ ہی یاد رہا ۔ اس کے آگے بس اندازے  لگاتے جاتے ہیں ۔ بیٹا ذہین ہے وہ راستہ یاد نہیں رکھتا سیدھا گوگل میپ لگا لیتا ہے ۔ اور جہاں جانا ہو وہاں چلا  جاتا  ہے  ۔‌اس کے خیال میں اس ٹیکنالوجی کے دور میں راستے گلیاں یاد رکھنا نری بیوقوفی ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ بیٹے کبھی گوگل بھی دھوکہ دے جاتا ہے ۔ رہبر بنتے بنتے  رہزن   بھی بن جاتا ہے یہ

مدینہ کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

 اب ہمارا قافلہ مدینہ کی طرف رواں دواں تھا ۔ مکہ کے سات دن پلک جھپکتے گذر گۓ اور وہاں سے  رخصت لینے کا غم ساتھ تھا تو آقا کی روضہ کی زیارت کا شوق  نے اس غم کو کم کر دیا تھا ۔  ہاں میں اب مدینہ جا رہی ہوں ۔ اپنے آقا کے شہر ۔۔ وہ مدینہ جہاں میرے آقا نے اپنی عمر کے  بقیہ سال یہیں گذارے اور یہاں  چپہ چپہ میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ یادیں  ہیں جو کسی بھی عاشق رسول کے لیۓ کسی خزانہ سے کم نہیں ۔  مدینہ تیری معطر فضاؤں کو سلام  زبان پر درود شریف کا نذرانہ لیۓ ہم مدینہ شہر میں داخل ہوۓ ۔چونکہ رات ہو گئ تھی اس لیۓ دوسرے دن علی الصباح زیارت کرنے کا ارادہ کیا ۔صبچ تازہ دم غسل اور نۓ کپڑے پہن کر ہی روضہ پر  حاضری ہو ۔  دوسرے دن جب مسجد نبوی میں ہم نے قدم رکھا تو یوں لگا صدیوں کی پیاس آج بجھ گئ ۔‌ سبز گنبد کا نظارہ ایسا تھا کہ نظریں بس اس پر ہی ٹکی رہیں ۔ یہ گنبد خضرا ہے ۔‌وہی گنبد خذرا جسے ہم اکثر نعتوں کے ویڈیوز وغیرہ میں دیکھا کرتے تھے ۔‌جس کی زیارت کی تڑپ نجانے  کتنے برسوں کی تھی ۔‌ آج ہمارے سامنے تھا اور ہم لب بستہ اس گنبد کی خوبصورتی سے  مسحور ہیں ۔ الصلوات واسلام علیک  یا رسول االل

چاہ زم زم اور سعی

 سعی ،صفا و مروہ کے ان  سات چکروں  کو کہتے ہیں جو حضرت ہاجرہ علیہ السّلام‌نے   اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی پیاس کو دیکھ کر پانی کے لیۓ تڑپ کر لگائ تھیں اور حضرت ہاجرہ علیہ السّلام کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئ کہ قیامت تک کے لیۓ اس کو اپنے بندوں پر  واجب کر دیا ۔ کہ جب بھی کوئ عمرہ یا حج کو آۓ خواہ مرد ہو یا عورت ،وہ یہ سعی لازمی کرے ۔ اس کے بغیر اللہ کو آپ کا عمرہ یا حج قبول نہیں ہو گا ۔  ۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔اس واقعہ کے بارے میں آپ کو علم ہو گا کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السّلام  نے حضرت ہاجرہ علیہ السّلام کو اپنے شیر خوار بیٹے کے ساتھ یہاں مکہ میں اس سنسان ویران میدان میں لا چھوڑا تو یہ بالکل صحرا تھا ۔ دور دور تک کسی درخت پودے کا نام و نشان تک نا تھا ۔ اپنے اللہ کی رضا کی خاطر وہ اپنی زوجہ اور بیٹے کو اس میدان میں چھوڑ گۓ تھے ۔ یہ بات حضرت ہاجرہ کو علم تھا کہ یہ اللہ کی مرضی ہے ۔اس کا حکم ہے جسے ان کے خاوند نے پورا کیا ہے اس لیۓ زبان پر کسی بھی قسم کا شکوہ لاۓ بغیر انہوں نے اس میدان میں رہنا گوارہ کر لیا ۔ جہاں نا کوئ آدم تھا نا کوئ آدم ذاد ،نا کوئ چرند پرند ۔۔۔دور دور تک صرف میدان پ

کعبہ پر پڑی جب پہلی نظر

 کعبہ پر پڑی جب پہلی نظر  کیا چیز ہے دنیا بھول گیا  کچھ ایسی ہی کیفیات تھیں اس وقت جب میری پہلی نظر کعبہ پر پڑی تھی ۔ جب مکہ کے مقدس شہر میں ہم نے قدم رکھا تو ہم حالت احرام میں تھے ۔ عشا کا وقت تھا ۔ جب ہم سوۓ کعبہ چلے تھے ۔ زبان پر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں تھیں اور نظریں جھکی ہوئ تھیں ۔ اور اس وقت تک جھکی  رہیں جب تک معلم صاحب نے نظریں اٹھانے کا نا کہا ۔ کہ انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ براہ راست کعبہ پر نظر نا ڈالیں بلکہ بہت دھیرے دھیرے نظر اٹھائیں اور جب کعبہ آپ کی مکمل نظروں میں ہو تب دعا مانگ لیں ۔  ۔۔۔۔‌اور ہم سب نے ان کے کہنے کے مطابق جب کعبہ پر پہلی نظر ڈالی تو ہم سب گروپ ممبرز رونے لگے تھے سب کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے ۔ جانے کیا کیا یاد آ گیا اور کیا کچھ بھول گۓ۔ میرے لیۓ بھی یہ الگ ہی کیفیت تھی ۔ روتے روتے دعا مانگی تھی ۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی میں میں یہاں پہنچی ہوں اور کیا یہ میں ہی ہوں جو کعبہ کے سامنے بیٹھی ہوں ۔‌کعبہ کا گہرا سبز غلاف اتنا خوبصورت لگتا ہے کہ نظر ہی نہیں ٹھہرتی ۔ ایک الگ ہی رعب سا محسوس ہوتا ہے ۔ آنکھ بار بار جھک جاتی ہے احترام میں ۔ یوں نظر بھر کر دی

خدا اور محبت

 خدا اور محبت  اللہ تعالی نے بنی نوع انسان کو جب بنایا ہو گا تو ان کی خمیر میں محبت کا عنصر تو  ضرور ڈالا ہو گا ورنہ یہ ساری کاینات بنا محبت کے یوں نہیں چل سکتی ۔ محبت کو  مرد و عورت کی ذات تک محدود رکھنا میرے خیال میں لفظ محبت کی تو ہین ہے ۔ محبت تو ہر جگہ ہے ۔ ہر شے میں چھپی ہے ۔  کائنات کا ہر ذرہ بے لوث محبت کے جذبے کا گواہ ہے ۔  والدین کی محبت ۔ بھائ بہن کی محبت  دوست سے محبت  جانوروں سے محبت  ااور انسانیت  سے محبت  ان ساری محبتوں میں  سب سے اعلی مقام پر ہے بندے کی اللہ سے محبت ۔ اور خدا کی اسکے بندے سے محبت ‌۔  ہمارا اللہ ہم سے کتنی محبت کرتا ہےیہ ہم جانتے تو شاید کبھی شکوہ نا کرتے اپنی تقدیر کا ۔ ۔ وہ ہمیں وہی دیتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے ۔ ایک بندہ کو کیا چاہیے اور وہ کیا ڈیزرو کرتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن اللہ ہمیں وہ دیتا ہے جو ہماری سوچ ہماری  امید کے بر عکس ہمارے لیۓ بہت  بہتر ہو تا ہے ۔‌ ہم اپنی محدود سوچ کو لیکر اللہ سے دعا مانگتے ہیں ۔‌اور کبھی کبھی تو اپنے لیے خیر کے بجاۓ شر مانگ لیتے ہیں ۔اور یہی سمجھ رہے ہو تے ہیں کہ وہ ہمارے لیے اچھا ہو گا ۔ اور جب اللہ تعالی ہمیں&

محبت کا قرض

 محبت کا قرض  ۔ وہ دونوں باہر آنگن میں سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔ انکے چہروں پر کئ زمانوں کا درد بکھرا تھا ۔ غروب ہوتے سورج  اکی   زرد شعائیں ان کے دکھی جھریوں بھرے چہرے پر یوں پڑ رہی تھیں جیسے کہنا چاہتی ہوں کہ اس دکھ میں تم اکیلے نہیں یہ دکھ تو سورج ہر روز سہتا ہے ۔ہر چڑھتے سورج کی پوجا ہوتی ہے اور۔ ڈوبتے سورج ہمیشہ تنہای کا دکھ لیکر ڈوبتا ہے ۔اس جاتے سورج کی وقعت بس اتنی ہی ہو تی ہے کہ شام کا دکھ منا لیا جاۓ۔  ڈوبتا سورج رات کا پیغام لے کر آتا ہے ۔ دکھ ،تنہائ،زوال  کا استعارہ ہو تا ہے ڈوبتا سورج ۔ اور آج اس آنگن میں ڈوبتے سورج کو دیکھتے وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھے ۔ شاید اس وقت   ان کے پاس جن یادوں کا سرمایہ تھا وہ اسی ڈوبتے سورج جیسا تھا ۔جنکی اب وقعت کچھ نہیں تھی ۔ کچھ بھی نہیں ۔ ۔ "دیکھو ۔عمر ۔ابا کو  دس دن میں رکھوں گا ۔اور تم امی کو دس دن  رکھ لینا ۔اور رہے دس دن تو وہ ثمن آپا   رکھ لیں گی۔ یہ فخر صاحب کا سب سے بڑا بیٹا "بڑا" بن کر ان کا" بٹوارہ "کر رہا تھا ۔اور وہ سب انہیں رکھنے  کے ،انکی دیکھ بھا ل کرنے کے دن گن گن کر آپس میں بانٹ رہے تھے ۔ "لیکن بھائ م