اشاعتیں

جون, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ڈائجسٹ ریڈر 8

 وہ ڈرائینگ روم میں مونگ پھلی کھاتے اپنا پسندیدہ ناول جنت کے پتے پڑھ رہی تھی ۔ اس وقت چار بج رہے تھے ۔ صبح سے ہلکی بارش ہو رہی تھی ۔اور بارش ہو اور محترمہ انشا مونگ پھلی نا کھائیں ۔یہ تو ہو نہیں سکتا تھا مگر ڈرائینگ روم میں کھانے کی کوئ تک نہیں بنتی تھی مگر وہ "جنت کے پتے" میں کچھ اس قدر گم تھی کہ صوفہ پر آبیٹھے ،ٹی ٹیبل پر اپنے دونوں پاؤں جماۓ۔اپنی گود میں ڈائجسٹ رکھے  مونگ پھلی چھیل چھیل کر کھانے لگی تھی  ۔کانوں میں ہینڈ فری بھی تھے ۔جس سے  وہ اپنی پسندیدہ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہو رہی تھی۔ وہ اس وقت بالکل وہیں تھی جب" جہاں " حیا کو پھول بھیجتا ہے ۔اور وہ ڈر جاتی ہے ۔کہ اسکے گھر کی بیل بھی بالکل ویسے ہی بجی ۔ "یا اللہ خیر ۔" اس نے اپنا ہاتھ سینے پر رکھ لیا ۔  اس نے دونوں پیر زمین پر رکھے تو گود میں موجود پھلی کے چھلکے ساتھ ہی گرے ۔وہ انہی چھلکوں پر پیر رکھتی باہر آئ تو وہاں وہی شرافت کا پتلا ٹہرا تھا ۔اپنی کیپ اس نے آج ہاتھ میں لے لی تھی جس سے  اسکے گھنگھریالے بال بکھرے بکھرے سےلگ رہے تھے ۔ وہ اسے دیکھ کر ہی تپ گئ ۔ آآپ کا پارسل "۔ وہ خود بھی منہ ب

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔۔قسط 7

  جس جس طرح سے انشا ایک ڈائجسٹ کے ہیرو کے لیۓ خوار ہوئ تھی اس کے بعد تو اس نے اپنے آپ ہی اس کھوج سے توبہ کر لی تھی ۔ اگر واقعی میں کوئ ہیرو ہوتا تو ضرور ہی اس سے ٹکراتا۔اس کی کوشش رائیگاں ہی گئ ۔ ہونہہ ۔ اب میری جوتی کو بھی پرواہ نہیں ۔ وہ کوفت میں مبتلا ہو چکی تھی ۔ آ"آیا بڑا ہیرو ۔"  چونکہ اب امید ختم ہو چکی  تھی تو اس کا راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔لیکن اس جون کے تپتے موسم میں جب اسکے گھر کی بیل ہوئ تو۔۔۔۔۔۔ "میم آپ کا آرڈر ۔ " وہ ایک ڈلیوری بواۓ تھا ۔دھوپ سے بچنے اس نے ایک کیپ پہنی تھی ۔اسکے ہاتھ میں اس کا پارسل تھا ۔وہ اکثر آن لائن شاپنگ کرتی رہتی تھی۔  ابھی کچھ دنوں سے میگزین ،ڈائجسٹ بھی ،آن لائن منگوانا شروع کیۓ تھے ۔ ا"اوہ ۔ میرا ڈائجسٹ آگیا" ۔ وہ اچھل پڑی تھی ۔ لیکن ڈلیوری بواۓ کی تمسخرانہ نظروں کو بھانپ کر اپنی جون میں واپس آ گئ تھی ۔ "بل کتنے کا  ہے "۔ اس نے رعب سے پوچھا ۔کپھی کبھی رعب ڈالنا ضروری ہوتا ہے ۔ "جی ۔دو سو بیالیس  روپیے" ۔ اس نے کا روباری انداز میں کہا ۔اور پیپرز پر لکھنے لگا ۔ "ہاں ابھی لاتی ہوں" ۔ وہ

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔قسط 6

  اس سے پہلے کہ سر ابرار بے مروتی سے کار آگے بڑھا تے ۔اس نے انہیں روک لیا ۔ سر ۔سر ۔ میں چلوں گی آپ کے ساتھ ۔‌" اس نے بارش سے اپنے آپ کو بچاتے کہا تھا ۔ اوکے ۔بیٹھ جائیں ۔ انہوں نے فرنٹ ڈور کھولا اور وہ جلدی سے  بیٹھ گئ ۔ سر ابرار انہیں ہسٹری یعنی تاریخ پڑھاتے تھے اور پڑھاتے پڑھاتے تار,خ میں کچھ اس طرح غرق ہو جاتے کہ خود تاریخ کا ایک کردار بن جاتے ۔ آ"آپ کا گھر ۔۔"۔انہوں نے اسکے گھر کا ایڈریس پوچھا اور وہ بتانے لگی ۔ جب ایڈریس بتا کر خاموش ہو ئ تو گاڑی میں  گانے چل رہے تھے ۔ جب دل ہی ٹوٹ گیا ۔ اس دل کا کیا کریں گے  اس نے  بڑی حیرانی سے انہیں دیکھا ۔ ستر سالہ عمر کے اس دور میں ان کا کونسا دل ٹوٹ گیا  ہو گا ۔جسکی وہ دہائ دے رہے ہیں ۔ کیا اس عمر میں بھی لوگ ٹوٹے دل کی دہائ دیتے ہیں ۔ وہ افسوس اور رنج میں گھر گئ تھی۔ آ"پ نے میرے مضمون کے اسائنمنٹ مکمل کر لیے ۔" انہیں یاد تھا کہ اسکے اسائنممنٹ اکثر نا مکمل ہو تے تھے ۔ اور وہ نا صرف تاریخ بلکہ اس جیسی نکمی طالب علم کو بھی یاد رکھے ہوۓتھے ۔ یوں تو اسے بہت زیادہ پڑھنے کا شوق نہیں تھا مگر تاریخ ۔۔۔تاریخ سے تو اسے حد درج

ڈائجسٹ ریڈر قسط 5

  وہ امی کو لیکر بازار آ تو گئ تھی اور گھوم پھر رہی تھی ۔مگر اسے اپنا مطلوب کہیں نظر ہی نہیں آیا ۔ امی بھی بے مطلب پھر کر بیزار ہو چکی تھیں ۔ آخر تمہیں لینا کیا ہے ۔ سوٹ پسند کرنے جاتی ہو اور ساڑی پوچھنے لگتی ہو ۔اور کپڑوں کی دکانوں پر بیگ پوچھنے کی کوئ تک بھی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے تمہیں لینا وینا کچھ نہیں ہے بس خوار ہی ہونا ہے ۔  " ایسی بات نہیں ہے امی ۔ مجھے یہ رنگ کا دوپٹہ چاہیے تھا ۔مل ہی نہیں رہا ۔ اس نے جلدی سے اپنا پہنا ہوا دوپٹہ ان کے سامنے کیا تھا ۔ " ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر میچنگ سنٹر میں تم بالوں کے کلپ پوچھ رہی تھیں ۔ اور خریدا تو تم نے کچھ بھی نہیں ۔ ان کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا تھا  ۔ جی ۔ اب دیکھتی ہوں ۔ کچھ لینے کی کوشش کرتی ہوں ۔" وہ اندر دوکان میں جا ہی رہی تھی کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔کسی نے اس کا دوپٹہ پکڑ لیا تھا ۔ یا اللہ ۔ اس نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔ " کیا وہ مجھے یوں راستہ میں روکے گا ۔ اب میں امی کو کیا کہوں گی ۔ " وہ بیچ سڑک پر خوامخواہ شرما رہی تھی ۔ جب ایک بار اور اس کا پلو کھینچا گیا تو وہ اپنے بال لہراتی پلٹی تھی ۔ سامنے ایک بے ح

بڑا بھائ ۔۔

 بڑا بھائ " میں نے کہا نا ۔وہ اب اس گھر میں نہیں آے گی۔ ۔اب وہ ہمارے لیے ہم سب کے لیے مر گئ ہے ۔ " وہ اس کا بڑا بھائ تھا ۔ اور بڑے بڑے فیصلے کر رہا تھا ۔ ماں اب رونے لگی تھیں ۔ بیٹی کی ضد اور گھر کی عزت اور بیٹے کا فرمان ۔۔ ایک موچی کے  بیٹے سےشادی کر دینے سے میں خود مر جانا پسند کروں ۔ باپ بھی افسردہ تھے ۔وہ بیٹے کی بات سے متفق تھے ۔ اب اس گھر سے کومل کا رشتہ ہمیشہ کےلیے ختم ۔ اس کی شادی کردیں اور ہمیشہ کےلیے رخصت کر دیں ۔ اس کے بڑے بھائ نے فیصلہ سنا دیا تھا ۔ کومل نے اپنے آپ کو دو راہے پر محسوس کیا تھا ۔ وہ عورت تھی ہمیشہ دو راہے پر اسکی زندگی آ کر ٹھہر جاتی تھی ۔ اس نے محبت چنی تھی اور سعد سے شادی کر لی ۔وہ سعد جو موچی کا بیٹا تھا ۔مگر پڑھا لکھا اور شریف ۔ وہ دونوں اس شہر سے چلے گۓ تھے ۔ کومل سے ہر رشتہ توڑ لیا گیا  ۔اسکی بھائ کی شادی ہو گئ بچے ہو گۓ اور اس کو کسی نے نہیں بلایا ۔ اس کے اپنے بچے بھی ہو گۓ ۔مگر ایک کیل دل میں دبی رہ گئ ۔وہ ایک کسک جو رشتوں سے دوری کی تھی ۔سعد اسے بے پناہ محبت کرتا تھا مگر وہ اس کے رشتے اسے واپس نہیں دے سکتا تھا ۔وہ کومل تھی ۔وہ کومل احساسات

ڈایجسٹی ریڈر ۔۔۔قسط 4

 وہ تمام دسترخوان کی نعمتوں پر ٹوٹ کر حملہ آور ہو چکی تھیں ۔ سارے ادب آداب کو بالاۓ طاق رکھ کر ۔ جب واپس ہال میں آئیں تو کئ کی لپ اسٹک ،چکن کے ساتھ شکم میں اتر چکی تھی اور کئ نے بریانی اور رائتہ کے ساتھ میک اپ پر بھی ہاتھ صاف کر لیا تھا ۔ اچکن لیگ پیس کو کھاتے ہوے تو یوں بھی چہرے کے زاویۓ بگڑ جاتے ہیں ۔اس کے ساتھ۔ چٹخارہ دار چکن تندوری ہو تو آنکھوں کے پانی کے  ساتھ مسکارا بھی بہہ جا تا ہے ۔ اور اب ان  سب کے چہرے ما بعد طوفان کے نظارے پیش کر رہے تھے ۔ اور اب  میک اپ کا ایک اور دور چل رہا تھا ۔بزرگوں نے تو انہیں ان کے حال پر ویسے بھی چھوڑ دیا تھا ۔  وہ تمام ایک بار پھر میک اپ کے "جدید دور "سے گذر رہی تھیں ۔جب شریف بھائ  وہاں آۓتھے ۔ "  شادی حمنہ کی ہو رہی ہے یا تم لوگوں کی ۔ کیا دھرا دھڑ کریم پر کریم تھوپ رہی ہو تم لوگ ۔ " وہ ان کے میک اپ پر چراغ پا لگ رہے تھے ۔  " نہیں شریف بھائ ۔ شادی تو حمنہ کی ہی ہو رہی ہے ۔ ہماری ایسی قسمت کہاں ۔ " دیبا فیس پاؤڈر لگاتے مگن انداز میں بولی تھی ۔ " اچھا ۔قسمت پر رو رہی ہو ۔ کہ ۔۔۔۔"  مارے شرم کے شادی جیسا لفظ ان

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔قسط 3

  " جو بھی تھا مگر میں تو بہت منفرد لگ رہی تھی ۔امی " اس کی سوئ وہیں اٹکی تھی ۔ "  لگتا ہے تم تو سدھرنے والی نہیں ۔مگر اب جو بھی ہو ۔منفرد بننے کی کوشش مت کرنا ۔ " امی نے اسکے سامنے باقائدہ ہاتھ جوڑے تو وہ شرمندہ سی ہوئ ۔ " ارے نہیں امی بس آپ پریشان نا ہوں ۔ بس نارمل سے تھوڑا ہٹ کر تیار ہونا اچھا لگتا ہے ۔ "  " وہی تو ابنارمل  بن کر چلنے سے اچھا ہے ۔تم نا چلو ۔ " اس کے انداز پر امی کی جان جلی تھی ۔ " امی ۔آپ مجھے دعوت میں لیجانا چاہ رہی ہیں کہ نہیں ۔ " اب وہ بھی چڑی ۔ " نمونہ مت بننا بس ۔  مگر جلدی کرو ۔"۔ وہ آف موڈ کے ساتھ ہی باہر چلی گئیں ۔ " اور وہ جب تیار ہوئ تو اسے  دیکھ کر ان کی جان جل کر خاک ہو گئ تھی ۔ ہلکے سرمئ رنگ کے   گولڈن بارڈر والا سوٹ جس پر ہلکا سا کام تھا ۔اور فل دوپٹہ بنا میک اپ کے  ہلکی سی میچنگ جیولری پہنے وہ مکمل ڈایجسٹی ہیروئن  بن کر ان کے سامنے تھی ۔ انہوں نے خون کے گھونٹ پی کر اس کے ساتھ جانے کا قصد کر لیا تھا ۔اگر اب بحث کا آغاز کرتیں تو دعوت رہ جاتی اور شام تک اس کا موڈ آف رہتا ۔اس لیے انہوں نے مص

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔ قسط 2

   امی کا ماتھا تو ایک سال بھر پہلے اس وقت ٹھنکا تھا جب وہ سونے جا رہی تھیں اور انشا کی سسکیاں انہیں سنائ دیں ۔ اآے ہاے کیوں رو رہی ہو ۔ " وہ اس کے قریب چلی گئ تھیں جو دونوں پیر اور ہاتھ ایک دوسرے سے لپٹے چہکوں پہیوں  رونے میں مشغول تھی ۔ " امی ۔وہ عمر تھا نا ۔۔۔وہ مر گیا "  انکے پوچھنے کی دیر تھی انشا اب دھاڑیں مار کر رونے لگی  ۔ " یا اللہ ۔عمر مر گیا ۔اور ایسے کیسے مر گیا ۔ابھی پرسوں تو ڈسچارج ہو کر آیا تھا ۔تمہاری پھپھو بتا رہی تھیں ۔اور تم یہ ابے تبے سے بات کر رہی ہو ۔وہ پندرہ سال بڑا ہے تم سے ۔ شادی شدہ  ہے ۔اور ۔۔۔"  " امی ۔وہ عمر بھائ کی بات نہیں کر رہی تھی میں ۔ وہ تو بیچارے صحتمند ہیں ۔ میں امر بیل کے عمر کی بات کر رہی تھی ۔" امی کی تیز چلتی زبان کو بریک لگانے کی کوشش کرتی وہ جلدی بول پڑی تھی ۔ " کونسا بیل ۔"۔امی کو خاک پلے نا پڑا ۔ عمیرہ احمد کے ناول کا ہیرو ۔۔اس نے اب شرمندگی سے اپنا سر جھکایا ۔ اوہ ہو ۔اچھا اچھا ۔۔" امی نے ایک قہر آلود نظر اس پر ڈالی ۔ میت کب کرہے ہیں وہ لوگ ۔ انہوں نے ٹھنڈے لہجہ میں پوچھا ۔ جی ۔وہ کچھ حیران

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔۔1

 ڈائجسٹ ریڈر ۔۔۔ " مالا ۔" ماہر فرید اسے روک رہا تھا  اس کے ہاتھ میں پھولوں کا بکےتھا۔ ۔ " نہیں ۔مجھے روکنا مت ۔ میں‌جا رہی ہوں ۔" وہ اب آگے بڑھ رہی تھی ۔اسکی باریک ہیلز کی کھٹ کھٹ  دور تک سنائ دے رہی تھی ۔ " میں جانے والوں کو روکتا نہیں ۔" ماہر فرید کی آواز اسکے کانوں میں سنائ دینے لگی ۔ " اے ۔انشا ۔اٹھو ۔انشا " کوئ اب اس کو جھنجھوڑ رہا تھا  " ماہر فرید ۔اسے روک لو ۔پلیز ۔ زیاد نے کالا جادو کروایا ہے مالا پر ۔ اسے روک لو ۔ " وہ اب نیند میں بڑ بڑا رہی تھی کہ امی نے  یکایک زور سے اس کا کمبل کھینچا ۔ انشا ۔اٹھتی ہے کہ ۔۔"انکی  دل دہلانے دینے والی آواز پر وہ اٹھی تھی ۔ سامنے امی اسے خونخوار نگاہوں سے۔ گھور رہی تھیں ۔انکے ہاتھ میں اس کا کمبل تھا ۔ " امی ۔۔وہ۔ماہر فرید ۔۔" وہ کچھ بولتی امی نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا ۔ "پڑوس کی جمعہ خالہ آىئ ہیں ۔ چا ۓ بنا کر لاؤ۔ " " ہاۓ ۔جمعہ خالہ اتوار کو کیوں آئ ہیں ۔ " اس نے منہ پھااڑ کر جماہی لی تھی ۔  " وہ جمعہ کو آئیں یا اتوار کو  ان کی مرضی ۔ ساری باتیں بعد میں کر

حضرت ٹیپو سلطان شیر میسور رح

 آج ہم دکن کی ایک ایسی شخصیت کا تعارف پیش کرنا چا ہیں گے جس نے ارض ہند پر سب سے پہلے انگریزوں کے ناپاک عزائم کو اس وقت بھانپاتھا  جب ابھی انگریزوں کےمذموم ارادے اہل ہند پر آشکار نہیں ہو ۓ تھے ۔یہ وہی شخصیت تھی جس نے  انگریزوں کے  ناپاک عزائم کی بیخ کنی میں اپنی زندگی تیاگ دی ۔ ۔یعنی  ان انگریزوں کے سامنے اپنا سر جھکانے کے بجاۓ ایک غیرت مند سلطان کی حیثیت سے آخری دم تک اپنی کوشش جاری رکھی۔اور اسی کوشش میں اپنی جان بھی اپنے ملک کی خاطر قربان کی اور شہید کہلاۓ۔ انکی غیرت اور بہادری سے انگریز اس طرح تھر تھر کانپتے تھے کہ جب میدان جنگ میں ان کی لاش ملی تو  ہر انگریز ان کے قریب جانے سے کترارہا تھا کہ کہیں ٹیپو سلطان زندہ نا ہوں اور اپنی تلوار کی ایک ضرب سے ہمیں جہنم رسید نا کر دیں ۔ جی ہاں ۔وہ اہم شخصیت جس کا ہم ذکر کر رہے تھے وہ شیر میسور حضرت ٹیپو سلطان رح کی ہے جن کی بہادری اور غیرت مندی کا معترف سارا عالم ہے ۔  سلطان 20 نومبر 1750، مطابق جمعہ 10 ذوالحجہ، 1163ھ کو دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ بنگلورکا  ایک دیہی مقام ہے جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ ٹیپو سلطان

میرے ہم نوا ۔۔پانچویں قسط

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔  اشعر کے جاتے ہی شمیم آرا باہر آگئیں تھیں ۔اور ابوالکلام کے قریب جا ٹہری تھیں جو کچھ متفکر سے لگ رہے تھے ۔انکے سفید چہرے مضمحل سا لگ رہا تھا ۔آنکھوں کے چشمہ کو وہ ہاتھ میں پکڑے جانے کیا سوچ رہے تھے کہ وہ شمیم آرا کو بھی دیکھ نہیں سکے۔  " کیا کہہ کر گیا اشعر ۔" شمیم آرا نے پہلے کھنکارا اور پھر کہا ۔ وہ چونک سے گۓ ۔ " " وہی جس کی اس جیسے بندے سے توقع کر سکتے ہیں ۔ " انکے لہجہ میں ناگواری جھلک رہی تھی ۔ " کیا دھمکیاں دے کر گیا ہے ۔ "  " اگر وہ دھمکی دے گا بھی تو مجھے ان دھمکیوں سے نپٹنا بھی آتا ہے ۔" " بس فکر تہذیب کی ہے ۔  اسکو کچھ نقصان پہنچانے کی کوشش بھی میرے لیۓ ناقابل برداشت ہے ۔ " اب ان کے لہجہ میں خوف محسوس ہوا ۔  " کیوں ،ایسا کیا کر سکتا ہے وہ ۔ " شمیم آرا کو کچھ حیرت ہو ئ ۔" وہ خطرناک حد تک ضدی ہے ۔‌اور میں نہیں چاہتا کہ اس کے ضد کی بھینٹ  میری بیٹی جڑھے ۔ "  " اسی لیۓ میں نے نکاح جیسا قدم اٹھا یا تھا ۔"  وہ اب جیسے اپنے آپ سے بات کر رہے تھے ۔ " " لیکن اسکے تیورمجھے ک