اشاعتیں

فروری, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میرے ہم نوا ۔۔چھٹی قسط

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔۔چھٹی قسط  وعلیکم السلام " نظیر صاحب نے خوش دلی سے کہا اور انکے گلے لگ گۓ جبکہ طہ نے صرف سلام پر اکتفا کیا تھا ۔ " آیۓ بھائ صاحب ۔ " شمیم آرا  آگے بڑھیں تھیں ۔صابرہ بیگم کے گلے لگ کر انہوں‌نے مسکرا کر کہا تھا ۔  اب وہ سب لا ؤنج میں آگۓ تھے ۔ اربیہ کو بھی لے آتیں صابرہ ۔" شمیم آرا نے صوفہ پر بیٹھ کر کہا تھا ۔ " بھابھی وہ تو اسکول گئ ہے ۔ چار بجے تک آۓ گی۔" اپنے دوپٹے کو سلیقے سے سر پر جماتے صابرہ نے کہا تھا ۔ " تہذیب کہاں ہے ۔ نظر نہیں آرہی " صابرہ کو اپنی بھتیجی یاد آگئ ۔ " آرہی ہے ۔ آپ بتائیں کیا منگواؤں ۔ " ٹھنڈا یا گرم " شمیم آرا نے سب کو دیکھ کر پو چھا تھا ۔ " اب کچھ دیر سے کھانا ہی لگادو ۔ تہذیب کو کیا ہوا ابھی تک آئ نہیں " ابوالکلام نے بیوی کو پوچھا ۔ " میں بلاتی ہوں ۔اور ساتھ اختری کو کھانے کے لۓ بھی کہتی ہوں ۔ " وہ اٹھیں تھیں ۔ جبکہ اب مرد حضرات اب باتوں میں مشغول تھے ۔ ":اسلام علیکم پھوپھو ۔ " تہذیب کچھ جھجھکتی اندر آئ تھی اسکے پیچھے شمیم بھی آگئ تھیں ۔ " وعلیکم السلام &q

میرے ہم نوا ۔۔۔۔۔چوتھی قسط

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔چوتھی قسط  کسکی شادی کی بات ہو رہی ہے ۔ " اشعر بڑا گیٹ پار کر کے اندر آ تھا اس نے آخری جملہ سن لیا تھا ۔ وہ سب جہاں تہاں خاموش ہو گۓ تھے ۔رابعہ بیگم نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا اور ایک ہو ک اٹھی تھی انکے دل میں ۔  " امی ۔۔آپا آپ سب ایسے اچانک خاموش کیوں ہو گۓ ۔ اور آج کیاکوئ خاص  بات ہے جو سب کے سب جمع ہیں ۔ " وہ ہنستے ہو ۓ اپنی بہن کی گود سے اسکے بیٹے کو لیکر کہہ رہا تھا ۔ "  ہم تو خیر ایسے ہی جمع ہیں تم سناؤ نوکری کا کچھ ہوا " سب سے پہلے  ثمینہ نے نارمل انداز میں بات شروع کی تھی ۔ " اتنی آسانی سے مل جاتی تو کیا بات تھی ۔ ہونہہ ۔ جہاں جاتا ہوں ۔ ڈگری میں فیل ہونے کی وجہہ سے رد کر دیا جاتا ہوں ۔ " اسکے لہجے میں کوفت تھی ۔ " ہاں تو  لوگ کامیابی دیکھتے ہیں اگر ڈگری کامیاب ہوتے تو یوں ملتی نوکری یوں ۔ "' شاہینہ کا شوہر مراد گویا ہوا ۔ " اگر ڈگری پاس ہوتا تب بھی آسانی سے نہیں مل جاتی نوکری ،جوتے گھس جاتے ہیں ۔ تب نوکر ی ملتی ہے ۔ " وہ اپنی ناکامی کو ایسے ہی کور کر لیا کر تا تھا ۔ "ایسے ہی رویہ کی وجہہ سے تہذیب ت

میرے ہم نوا ۔۔۔تیسری قسط

 گھر پہنچنے تک اکبر سیٹھ نے اپنے غصے کو بہت کنٹرول کیا تھا لیکن جیسے ہی امینہ  نے دروازہ کھولا تو وہ جس غصہ سے اندر گئے تھے ۔اور اندر سے بی انتہا غصہ میں اسے پکارا تھا وہ دہل کر رہ گئ تھی ۔اور خاموش ماں کو دیکھتی باپ کے کمرے تک گئ تھی ۔ " جی ا بو "  " ایک گلاس ٹھنڈا پانی لاؤ۔ " انکی آواز میں جو تیزی و تندی تھی وہ محسوس کر سکتی تھی ۔ مرے مرے قدموں سے واپس ہال میں آئ تو ماں کو دوپٹہ منہ مں لئے روتے دیکھا ۔ پہلے ابو کو پانی کا گلاس دے کر وہ واپس امی کے قریب آ ٹہری تھی ۔  ": کیا ہوا امی ۔آپ تو ماموں کے پاس گئ تھیں ۔کیا کہا ماموں نے " انکے کندھے پر ہاتھ رکھنے کی دیر تھی کہ رابعہ بیگم کے رکے آنسو تیزی سے بہنے لگے ۔ اور امینہ  اس افتاد پر پریشان تھی ۔  " امی آپ بتائیں گی کچھ ۔کیا ہوا ۔ " وہ انہیں سنبھالتے خود بھی رونے لگ پڑی تھی ۔ " اب رو کر کیا کروگی۔ کہا تھا ۔جاکر بات کر آؤ ۔اپنے بھائ پر دبا ؤ بنا کر رکھو ۔مگر اس کم عقل عورت کو سمجھ نہیں آیا ۔اپنی ہی کہے جا رہی تھی ۔میری باتوں کو نظر انداز کیئے جا رہی تھی ۔ دیکھ لیا نتیجہ اپنی سستی و کاہلی کا ۔ &

میرے ہم نوا ۔۔۔۔دوسری قسط

 میرے ہم نوا ۔۔۔دوسری قسط  " عابد ۔عابد "ایک بڑے سے لیونگ روم میں ابوالکلام اپنے آنکھوں پر چشمہ دھرے ہاتھ میں قرآن لیۓ بیٹھے تھے۔  " جی ۔صاحب جی ۔" عابد باہر لان میں تھا انکی آواز پر فوراً آیا تھا ۔ انکے غصہ سے سب کو خوف آتا تھا ۔ " باہر لان کی صفائ ہو گئ ۔" انہوں نے تحکم سے پو چھا ۔ " جی وہی کر رہا تھا ۔کئ پودے سوکھ رہے تھے اور جنگلی گھاس بھی ادھر ادھر اگی ہو ئ تھی ۔صبح فجر سے اکیلا لگا ہوں ۔ ابھی دو گھنٹے تک ہو جائگا ۔ " اس نے جلدی سے تفصیل سنادی تھی تاکہ وہ جان جائیں کہ وہ بھی بیکار نہیں بیٹھا تھا ۔ " اکیلے کیوں ۔ رحیم یا اختری کو ساتھ لے لیتے ۔دو گھنٹے لان میں لگا دوگے تو اوپر چھت کا کام کب کروگے ۔ وقت دیکھ رہے ہو ۔ اگر دن ڈھل گیا تو رات میں چھت کی صفائ مشکل ہو گی ۔ "  " جی ۔وہ اختری آپا تو بھابھی کے ساتھ کچن کی صفائ میں لگی ہیں ۔اور رحیم کو تو تہذیب بی بی نے بازار بھیجا ہے ۔ " وہ بول کر اب خاموش کھڑا تھا ۔  " ٹھیک ہے ۔اب تم جاؤ ۔ جلدی سے لان کا کام نبٹا کر آؤ ۔پھر دیکھتے ہیں چھت کا کام آج ہو سکتا ہے۔ کہ نہیں ۔ "

میرے ہم نوا ۔۔۔۔ پہلی قسط

 میرے ہم نوا ۔۔۔ قاضی صاحب کب تک آئیں گے ۔طہ ۔۔" نظیر صاحب نے اپنے اکھڑے اکھڑے بیٹے سے پوچھا ۔جو کمرے کی ایک دیوار سے لگ کر کھڑا تھا ۔ " ابا ۔قاضی صاحب آدھے گھنٹے میں آ جائیں گے ۔ آپ آرام سے بیٹھ جائیں ۔ " اس نے  اپنے قریب رکھی  کرسی انکے  کے آگے کی تھی جس پر ۔ نظیر صاحب بیٹھ گۓ ۔تھے  " قاضی صاحب کے آتے ہی نکاح ہو جائگا الیکن اس نکاح سے پہلے میری کچھ شرائط ہیں ۔اگر ماموں کو اعتراض نا ہو تو میں پڑھ سکتا ہوں ۔  اس نے اپنے ماموں پر ایک نظر ڈالی تھی۔  جو اس با ت پر اپنی کرسی پر پہلو بدل کر رہ گۓ تھے۔ جبکہ نظیر صاحب بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔  " شرائط ۔۔۔یہ کیا مذاق ہے ۔طہ ۔ اب کیا شریفوں کے گھر میں شرائط پر نکاح ہونگے ۔ انکا چہرہ   غصہ کی شدت سے  سرخ ہو گیا تھا۔۔  " یہ میری زندگی کا بہت اہم موڑ ہے اور میں اسے اپنی شرطوں پر ہی طۓ کروں گا ۔" اسکے بے لچک انداز پر جہاں نظیر صاحب چپ ہو ۓ تو وہیں ابو اکلام نے اپنے اس اکھڑ بھانجے کو بغور دیکھا تھا۔۔ " مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے ۔۔" انکے انداز میں بلا کی رسانیت نرمی تھی ۔ " منظور کرنے سے پہلے ساری