اشاعتیں

ستمبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تیرے لیۓ ۔۔قسط 13completed

  "رحیمہ ۔رحیمہ تم نے سنا ۔۔۔۔میں میں ۔۔۔ماں" وہ بول بھی نا پائ تھی۔اس نے سیدھا رحیمہ کے قریب لیٹے بچی کو اٹھا لیا تھا ۔ اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا ۔  "میں بانجھ نہیں ہوں ۔ نہیں ہوں ۔" وہ روتے روتے اسی کو بول رہی تھی جس نے اسے بانجھ ہونے کے طعنے دے دے کر اس کا جگر چھلنی کر دیا تھا ۔ "لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔باجی ۔" ۔۔اس کو یہ خبر ہضم کرنی مشکل ہو رہی تھی ۔  "مجھے بھی نہیں پتا "۔ اس نے بچی کو واپس لٹا دیا تھا ۔ "خیر مبارک باجی ۔۔"۔ اس کے حلق سے بڑی مشکل سے آواز نکلی تھی ۔ "شکریہ ۔میں ذرا باہر دیکھتی ہوں "۔ وہ باہر چلی گئ ۔تو رحیمہ کو لگا اس کے دل میں یہاں سے وہاں تک آگ لگی ہو ۔  "کیوں ۔کیوں ۔ خدا یا ۔کیوں ۔ یہ ایک ہی تو بازی تھی جس میں میری جیت تھی۔ وہ بھی میرے ہاتھ سے نکل گئ"۔ وہ سوچ سوچ کر سلگ رہی تھی ۔ اسی بات پر تو وہ اتراتی تھی کہ وہ فوزان کے بچوں کی ماں ہے ۔ کوئ اس معاملہ میں اس پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ مگر اس خبر نے اسے بہت  زیادہ دھچکا پہنچا یا تھا ۔ اس کے ہاتھوں‌سے جیسے یہ بازی نکلتی جا رہی تھی ۔ 

گاؤں کے گھر

 گاؤں کا گھر گاؤں اور گاوں کے گھر اور لوگوں کے بارے میں ہماری معلومات بہت ناقص تھیں ۔ لیکن شادی کے بعد ایک بار اتفاق سےایک ہفتہ کے لیے گاوں  جانا پڑ گیا ۔جانے سے پہلے ہی شوہر صاحب نے ڈرا دیا کہ۔ کام والی نہیں ہو تی ۔ کپڑے برتن خود دھونے پڑیں گے ۔  ٹھیک ہے ۔ دھو دیں گے ۔ ہم ڈرتے ہیں کیا ۔ ہم نے اپنے آپ کو تسلی دی ۔ گاؤں پہنچے اور ہماری چچی ساس کے  گھرمیں ہم نے قدم رکھا ۔ اتنا بڑا گھر ۔۔۔ہم حیرانی سے نظریں دوڑانے لگے ۔  بڑے بڑے کمرے اور آنگن در آنگن ۔۔۔۔آنگن تو اتنا بڑا تھا کہ شہر کا ایک گھر آرام سے بن جاۓ۔  دوسری صبح ہم نے ایک کمرے کو جھاڑو لگائ ۔اور  ایک بار جھاڑا ہے دوسری بار جھاڑنے کی ہمت نہیں ۔ کہتے جھاڑو ہی پھینک دی۔ اب سوچا باورچی خانہ میں اپنے خیالی جھنڈے لہرا لیں گے ۔یہ سو چکر اندر جھانکا تو دن میں تارے نظر آۓ ۔  وہاں گیس کا چولہا ہی ندارد ۔ لکڑی کا چولہا ہماری ہمت کو چیلنج کرتا نظر آ رہا تھا ۔ ہم نے وہاں سے بھی چپکے سے کھسک لینے میں ہی عافیت سمجھی۔  آخر ہم اور ہماری ایک چھوٹی نند نے برتن اور کپڑوں کا چارج لے لیا ۔ چونکہ کام زیادہ تھا لوگ بھی زیادہ تھے ۔ آخر ہمیں کچھ نا کچھ تو ک

تیرے لیۓ قسط 12 completed

  "بڑی مما ۔بڑی مما "۔۔۔اریشہ اپنے کمرے میں لیٹی تھی جب پری وہاں آئ تھی ۔اسکے پیچھے پیچھے دو سال کی افرح بھی تھی ۔ "ارے کیا ہوا ۔آپ دونوں کو ۔ "اس نے افرح کو گود میں لے  لیا تھا ۔ "بڑی مما ۔ ہم دونوں میں سے کون‌زیادہ کیوٹ ہے "۔ پری نے آنکھیں پٹپٹائیں۔ "مجھے سوچنے دو" ۔ اس نے ہنستے ہوے کہا ۔پھر اپنی ایک انگلی افرح کی جانب کی  ۔  "یہ ۔  ہرے "چھوٹی  افرح تالیاں بجا نے لگی ۔  "جائیے ہم نہیں بولتے آپ سے" ۔ پری ناراض ہوئ۔   ا"ارے آپ تو ہم سب سے زیادہ کیوٹ ہو "۔ اریشہ نے اسے روکا ۔"اچھا ۔ اور ہم ایک بات بتائیں۔ ۔" پری جلدی سے اسکے قریب آگئ۔  "آپ بھی بہت کیوٹ ہو ۔ "اس نے اس کے کان میں کہا ۔۔ "ہماری مما سے بھی زیادہ ۔‌" بری بات ۔مما کو ایسے نہیں بولتے ۔" اریشہ نے تنبیہہ کی ۔ "وہ ہمیں ڈانٹتی رہتی ہیں ہمیشہ ۔ وہ ہم سے پیار نہیں کرتیں "۔ پری کو اب رویوں کی سمجھ آنے لگی تھی۔  "وہ آپ سے بہت پیار کرتی ہیں ۔مما جو ہیں ۔ہر مما اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے ۔ آی سمجھ "۔ اس نے اسے لپٹا

تیرے لیۓ ۔۔۔قسط 11 completed

 تیرے لیۓ ۔۔۔قسط سولہ  دو ہفتے گزر گۓ اور فوزان آ گیا ۔‌رحیمہ پارلر جا رہی تھی ۔پہلی بار  فوزان نے اسے چونک کر کچھ حیران ہو کر دیکھا تھا ۔ اس نے سرخ لباس پہنا تھا ۔جس پر بڑے بڑے پھول بنے تھے ۔ بال کھلے چھوڑ دئیے تھے۔چہرے پر ایک لٹ آوارہ انداز میں جھول رہی تھی۔ سرخ لپ اسٹک اور مختلف رنگوں کے نیل پالش سے رنگے ناخن ۔۔۔۔۔۔ وہ اسے سر سے پیر تک دیکھ کر رہ گیا تھا ۔  "کہاں جا رہی ہو ۔تم ۔"  "پارلر ۔ "اس نے اس کی نظروں کو محسوس کر لیا تھا ۔اٹھلا کر کہا  "ناجاؤں کیا ۔" اس نے ایک ادا سے اس کی طرف دیکھ کر پو چھا تھا ۔ "چلی جاؤ۔ اتنے چاؤ سے تم نے جوائن کیا ہے ۔" اس نے خود کو تلخ ہونے سے روکا ۔اور خود نیچے جانے لگا ۔ "کہاں جا رہے ہیں آپ ۔ "اس کی بے رخی سے وہ جل گئ۔  "پری کے پاس "۔‌وہ کہتا نیچے اتر  گیا تھا ۔‌ "ہونہہ۔پری کے پاس ۔ یہ نہیں کہا کہ اپنی لاڈلی کے پاس جا رہے ہیں ۔ سب جانتی ہوں "۔اس کے انداز میں زمانے بھر کی کھو لن تھی ۔  ******* اس نے کمرے کے دروازہ کو ہلکے سے دھکیلا تھا ۔ اور خود اندر چلا گیا ۔‌ اریشہ بیڈ پر ایک طرف کو

او کے گوگل

"اوکے! گوگل پلیز ٹیل می دا سپیللنگز آف ۔۔۔۔۔" وہ اپنے فون پر گوگل اسسٹنٹ لگائ بات کر رہی تھی " ۔ہیلو 'ہیلو ' اوکے! گوگل " "اے شبو !"تو یہاں بیٹھی کس سے بات کر رہی ہے "۔اماں نجانے کب سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ اماں کے سامنے فون لیۓ گوگل اسسٹنٹ لگا لیا تھا۔ابھی کچھ دیر بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے والا تھا۔  "ارے اماں۔میں تو گوگل سے بات کر رہی تھی" " ۔وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ یہ موا" گوگل" کون ہے ۔جس سے پٹر پٹر باتیں کر رہی ہو "۔وہ روٹی پکاتے پکاتے پکاتے اسکے سر پر پہنچ گی تھیں ۔ "ارے اماں' ہمیں اگر کچھ بھی معلوم کرنا ہو تو گوگل مدد کرتا ہے" ۔اس نے آسان لفظوں میں سمجھانا چاہا ۔ "مطلب' اسکو کام دھندہ نہیں ہے اور"...." تم کو بھی نہیں "۔"یہ تو پتا لگ رہا ہے" ۔ "اففوہ اماں' اگر ہم اس سے کچھ بھی پوچھیں تو وہ بتادے گا۔ " "کیوں؟ وہ تمہارا نو کر لگا ہوا کہ تم کہیں کی امیرذادی کہ وہ تمہارے سوالات کے جوابات دینے کے لیۓ بیٹھا ہے"۔ان کا

تیرے لیۓ ۔قسط 10 completed

 وہ شام میں کپڑے لیۓ اپنی الماری سٹ کر رہی تھی ۔جب رحیمہ اس کے پاس آئ تھی ۔  "باجی ۔ " "آؤ ۔رحیمہ کیا ہوا ۔" اس نے اپنا کام کچھ دیر کے لیۓ موقوف کر دیا تھا . "باجی میں بیوٹی پارلر کا کام  سیکھنا چاہ رہی تھی "۔ وہ انگلیاں مروڑ کر بول رہی تھی ۔  "بیوٹی پارلر "۔اریشہ نے حیرانی سے دہرایا تھا ۔ "کیا تمہیں دلچسپی ہے ۔اس میں ۔ " "ہاں باجی" ۔اس نے سر ہلایا ۔ "فوزان سے پوچھا ۔" اس نے سوال کیا ۔ "پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا کہ پری کو سنبھالو کافی ہے ۔"وہ سر جھکا کر بولی ۔ "باجی ۔گھر کے بالکل قریب ہے ۔ آپ اپنے اسکول سے آئیں گی تب میں جاؤں گی۔ پری کی بھی ٹنشن نہیں ہو گی۔" وہ اسے راضی کرنا چاہ رہی تھی ۔ ۔  ااریشہ کچھ دیر سوچتی رہی ۔ پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ "ٹھیک ہے ۔جوائن کر لو ۔ میں بول دوں گی فوزان کو ۔ " "شکریہ باجی" ۔ اس کی خوشی چھپاۓ نہیں چھپ رہی تھی۔  ********** دوسرے دن فوزان اس کے پاس آیا تھا ۔ "کیوں دی اسے اجازت" ۔‌وہ چڑ کر بولا ۔ "جانے دیں ۔بور ہو رہی ہوگی

تیرے لیۓ ۔۔قسط9 complete

 گھر میں پری کیا آئ ۔در ودیوار میں روشنی سی ہو گئ ۔ گھر جو تین نفو  س کے ہو تے ہوۓ بھی ویران خاموش لگتا تھا اب پری کے آنے سے گونجنے لگا تھا ۔    امی کی گود  میں وہ کھلکھلاتی تو رحیمہ کے پاس ہنستی ،فوزان سے منہ بنا بنا بات کرتی یا پھر گلا پھا پھاڑ کر روتی ۔ان‌کو وہ ہر زاویہ سے اچھی لگتی ۔  گھر میں پری نہیں زندگی دوڑنے لگی تھی ۔  رحیمہ کو ابھی تین مہینے کا بیڈ رسٹ تھا ۔اور اریشہ ابھی بھی تندہی سے اس کی خدمت میں لگی تھی ۔ اب تو رحیمہ کے ساتھ پری کا بھی اضافہ تھا ۔‌ فوزان کی بہنیں بھائیوں نے بھی آ کر بچی کو دیکھ لیا تھا اور اب سب اریشہ کی تعریفیں کرتے  نا تھک رہے تھے کہ اس کے ایک قدم نے گھر کو لازوال نعمت سے بہرہ مند کیا تھا ۔ ******** اریشہ ۔اریشہ ۔فوزان اسے پکار رہا تھا ۔  "باجی قریبی مارکٹ گئ ہیں ۔" رحیمہ نے لیٹے لیٹے ہی کہا ۔ تھا ۔ "اوہ اچھا ۔یہ بچی کے پیپرز رکھ دینا ۔سرٹیفیکٹ ہیں" ۔وہ لفافہ اسے دے کر پری کے پاس چلا گیا ۔ "سو گئ کیا" ۔ وہ اسے جھک کر دیکھنے لگا ۔ "نہیں ۔"  ا"اچھا ۔ دیکھوں تو "۔ وہ اسے اٹھا نے لگا ۔ پری اسے دیکھ کر مسکران

تیرے لیۓ ۔۔۔قسط 8 completed

 تیرے لیۓ ۔۔۔قسط تیرہ  ا" میں آفس جا رہا ہوں ۔ کچھ منگوانا ہے تو بول دو "۔ وہ شوز کے لیز باندھ رہا تھا ۔  اریشہ پلیٹ میں سیب کاٹ کر رحیمہ کو دے رہی تھی۔ اور اسے کھانے کے لیۓ اصرار بھی کر رہی تھی ۔  "مجھے تو کچھ نہیں منگوانا" ۔اریشہ نے سیب کاٹ دیے تھے اور کچن میں چلی گئ تھی ۔  ا"اور تمہیں ۔۔ "وہ جوتوں کے لیز باندھ کر سیدھا کھڑا ہوا تھا ۔وہ رحیمہ سے مخاطب تھا ۔  رحیمہ جو بڑی مجبوری سے سیب کھا رہی تھی اس کے مخاطب ہو نے پر بری طرح نروس ہوئ ۔  "ہاں ۔ اگر تمہارا دل کچھ کھانے کو چاہ رہا ہے تو ۔۔"وہ نرمی سے بولا ۔ "مجھے تو جی بس کھٹا کھانے کو جی چاہ رہا ہے" ۔وہ بڑی بے چارگی سے بولی تھی۔  "کیا ۔"وہ بے ساختہ ہنسا تو ہنستا چلا گیا تھا ۔  "کیا ہوا آپ کو  اتنا کیوں ہنس رہے ہیں "۔ اریشہ کچن سے واپس آئ تو اسے یوں ہنستا دیکھ کر پو چھ بیٹھی تھی ۔  "کچھ نہیں ۔بس اس نے اتنے ٹیپیکل انداز میں کہا کہ مجھے کھٹا کھا نا ہے تو مجھے ہنسی آگئ۔" وہ ابھی بھی ہنسے جا رہا تھا ۔ رحیمہ تو بول کر پچھتا رہی تھی ۔  "ہاں تو لے آئیں ۔  ہر ق

تیرے لیۓ ۔۔قسط 7 complete

 تیرے لیۓ۔۔۔۔ اسی وقت فوزان اور اریشہ نے کچھ بولتی نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا ۔رحیمہ واپس آئ تو کافی نڈھال سی تھی ۔ "کیا ہوا  رحیمہ ۔تم‌ٹھیک ہو "۔ اریشہ نے اسے تشویش بھری نظروں سے دیکھا ۔ "باجی ۔مجھ سے کھانا نہیں کھایا جائے گا۔ واپس آرہا ہے ۔"وہ پیٹ پکڑے پکڑے بولی تھی۔  ا"اچھا ٹھیک ہے ۔تم وہاں لیٹ جاؤ ۔ڈاکتر کے پاس چلتے ہیں" ۔ اس نے اسے لٹا یا اور فوزان کی طرف مڑی ۔تھی۔ مگر اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بولا تھا۔۔ "تم ناشتہ کر لو ۔میں‌گاڑی نکالتا ہوں۔" گاڑی کی چابی ٹیبل سے اٹھا تا وہ بولا تھا ۔اریشہ نے اثبات میں صرف سر ہلایا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد وہ رحیمہ کو لیۓ لیڈی گائنا کولوجسٹ کے کلینک میں موجود تھے ۔  "میں ابھی چیک کرتی ہوں "۔ ڈاکٹر  رحیمہ کو لے کر اندر چلی گئ تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آئ تو مسکراتے ہوۓ بولی تھی ۔  " وہ ماں  بننے والی ہے۔" ڈاکٹر کی اس بات نے دونوں کو ایک پل میں بے پناہ خوشی سے ہمکنار کر دیا تھا ۔ "سچ‌۔ ڈاکٹر "۔ اریشہ خوشی سے بولی تو ڈاکٹر نے مسکراتے ہوے سر ہلایا ۔ "اللہ تیرا شکر ہے &quo