اشاعتیں

ستمبر, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مچھر

مچھر  ہمارا ایسا کوی ارادہ تو نہیں تھا کہ مچھر پر کچھ لکھیں ۔لیکن مچھر نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم‌اس پر لکھیں۔ہم نے بھی مچھر کو صاف کہہ دیا کہ" ہمیں کوئ تحریر نہیں لکھنی تم پر۔اب بھلا ہم تم پر لکھیں گےیعنی مچھر پر ۔" اسکے بدلہ میں اس نے اپنا جو گیت گانا شروع کیا ناں تو ہم زچ ہو گۓ۔کانوں کے پاس آنا اور سارے گا ما پا شروع کر دینا۔ ہم مچھر پر لکھیں گے ضرور، مگر انکی اقسام وغیرہ پر نہیں، کیونکہ اس کے لیۓ تو گوگل موجود ہے ۔وہ آپ کو ہر قسم کی معلومات دے گا ۔ویسے بھی ہم خود کونسا خود سے کچھ بیان‌کر سکتے ۔ہم بھی گوگل سے ہی مدد لیتے۔ تو پھر ان سب پر کیوں وقت ضائع کریں۔انکی اقسام ہو ں تو ہوں ۔ہمیں کیا ۔اب کیا ہم‌پر اتنے برے  دن‌آگۓ کہ مچھر اور انکی اقسام بیان‌کریں۔ لیکن ۔۔۔۔سر سری ہی سہی پر بتانا تو پڑے گاورنہ  مچھر نے برا منانا ہے اور اسکی ناراضگی کے ہم فی ا لحال متحمل نہیں ہو سکتے ۔ مچھروں کی کئ اقسام ہیں اور ابھی نجانے کتنی آنی باقی ہیں ۔سب سے پہلے تو وہ مشہور و معروف مچھر جسے عرف عام میں ملیریا پھیلانے والا مچھر کہتے ہیں ۔ہم‌اس مچھر کو کوسنے جانے ہی والے تھے کہ گوگل کرنے پر

جنم دن مبارک ہو جنم جنم کا ساتھ ہو

کہتے ہیں ستمبر کا مہینہ ستم ڈھاتا ہے ۔اس بات پر یقین تو نا تھا مگر جب پتا چلا کہ ستمبر میں ہی ہماری گروپ ایڈمن صاحبہ دنیا میں اچانک دھپ سے وارد ہو ئیں تو ایمان لانا پڑا کہ واقعی ستمبر ستم ڈھاتا ہے ۔اب کوئ یہ نا پوچھے کہ انکے آنے سے باقی کتنے اوپر گۓ کیونکہ یہ تو وہی بتا سکتی ہیں ۔اب یہ ستم نہیں تو کیا ہے کہ محترمہ نے اتنے مشکل نام رکھے ہیں کہ بندہ یاد کرنے پر آۓ تو عمر گذر جاۓ پر نام یاد نا ہوں ۔اور مشکل اتنے کہ فزکس اور میتھس بھی انکے ناموں کے سامنے آسان لگتے ہوں ۔کوئ بندہ پوری زندگی میں اتنے نام نہیں رکھتا جتنے نام انہوں نے تین سالوں میں رکھے ہیں ۔اور۔۔۔۔۔۔۔ ان کا ذکر ہو اور انکی "ڈی پیز "کا ذکر نا ہو ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔جتنی محبت گروپ ممبرز سے کرتی ہیں ۔اتنا ہی اپنی" ڈی پیز" سے ڈراتی ہیں ۔بندہ ان سے ڈرے نا ڈرے انکی ڈیپیز سے ضرور ڈرتا ہے ۔ڈی پیز کی دھاک تو ایسے بٹھا ئ ہے کہ لوگ انکے نا م سے زیادہ انکی خو فناک ڈی پیز سے یاد رکھتے ہیں" ۔اچھا!!! !وہی ناں خوفناک ڈی پی والی" ۔مطلب نام یاد ہو نا ہو خوفناک ڈی پیز ضرور یاد رہتی ہیں ۔              ہم تو انہی

گوگل اسسٹنٹ

گوگل اسسٹنٹ آخر دو گھنے کی سزاۓ کالا پانی کے بعد شبو اپنی اماں کو سمجھا سکی کہ گوگل اسسٹنٹ اور گوگل انسان نہیں ہیں ۔گوگل محلہ کا لچا لفنگا لڑکا نہیں بس ساری دنیا کا انکل ہے۔یہ سب سن کر اماں کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ "تو یہ سب کا چاچے بناکیوں پھرتا ہے ۔"وہ شبو کے کمرہ میں بیٹھ گئیں۔ "اماں !بس یوں سمجھو اگر آپ کو کوئ بھی مسئلہ پوچھنا ہو تو آپ گوگل اسسٹنٹ سے پوچھ سکتی ہو"۔ "اچھا "۔وہ سوچنے لگیں ۔ "کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں "......"۔اچھا! اس سے یہ تو پوچھ پڑوس کی رشیداں کی بکری کیسے مری "۔اماں کا سوال سن‌کر شبو کو تو جیسے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔ "اماں !۔آپ بھی ناں ۔میں آپ کو سمجھا کچھ رہی ہوں اور آپ سمجھ کچھ رہی ہیں" ۔  "ارے ۔تو نے ہی تو کہا کہ کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں" ۔"اچھا تو پھر" ۔وہ پھر سوچنے لگیں۔ "آپ بیماری وغیرہ کا پوچھ سکتی ہو "۔اس نے اپنی طرف سے مدد دی۔ "اچھا !۔تو یہ پوچھ ,کہ میرے کمر کا درد کب جائیگا۔ہاۓ سالوں‌ اس درد سے پریشان ہوں "۔ہاۓ !میری کمر. ہاۓ! میری کمر

کوفت

کوفت  کبھی کبھی کسی چیز پر کوفت اٹھانی پڑتی ہے ۔جیسے ہماری بہن کی فرینڈ کے ساتھ ہوا۔یہ فرینڈ اور دوسری سب مل کر بات چیت کر رہی تھیں ۔ان فرینڈ کا گھر ایسا ہے کہ یہ لوگ جہاں بیٹھے تھے ۔وہاں سے ہو تے ہوۓ کچن میں جانا پڑتا تھا۔ان فرینڈ کا بھائ جسے کچن‌میں جانا تھا ،وہ بار بار انکے بیچ آتا اور کچن میں گھس جاتا۔دو تین بار ایسا ہی ہوا ۔ایک دوست کو اس کی بار بار کی مداخلت ناگوار گذری،تو اس نے کہا۔ "یہ موصوف تو بار بار اس طرح آرہے ہیں ۔مجھے تو بڑی کوفت ہو رہی ہے"۔ یہ جملہ کچن میں ٹہرے اس بھائ نے سن‌لیا۔لیکن‌انکے جانے تک خاموش رہا۔وہ لوگ جب چلی گئیں تو اس نے اپنی بہن سے پوچھا۔  "یہ آپکی فرینڈ کو کیسے پتا چلا کہ میں کوفتے کھا رہا تھا" ۔ "ارے وہ تو تمہارے بار بار کمرے میں آنے پر اپنی نا پسندیدگی ظاہر کر رہی تھی۔اسے کیا پتا ،تم کیا کھا رہے تھے۔"۔ پھر وہ ایکدم چونک کر بولیں ۔ "کیااااااا! تم تب سے کوفتے کھا رہے تھے ۔پیٹو ،ندیدے، ہاۓ اللہ !امی ۔آپ کے کوفتے ۔۔۔"وہ چلائ۔  "شرم‌کر۔ کوفتے قیمہ کے ہیں امی کے نہیں "۔وہ بھانڈا پھوٹنے پر بھاگ کھڑا ہ

گوگل اسسٹنٹ

گوگل اسسٹنٹ "اوکے! گوگل پلیز ٹیل می دا سپیللنگز آف ۔۔۔۔۔" وہ اپنے فون پر گوگل اسسٹنٹ لگائ بات کر رہی تھی " ۔ہیلو 'ہیلو ' اوکے! گوگل " "اے شبو !"تو یہاں بیٹھی کس سے بات کر رہی ہے "۔اماں نجانے کب سے اسے دیکھ رہی تھیں۔  گاؤں کے اس پسماندہ سے علاقے کے ایک گھر میں وہ اپنا اسمارٹ فون کھولے بیٹھی تھی ۔اوور اب ٹائیپنگ سے بچنے کے لیۓ اس نے گوگل اسسٹنٹ لگا لیا تھا ۔  ۔یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ اماں کے سامنے لگا لیا تھا۔اور ایسا لگ‌رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے والا تھا۔  "ارے اماں۔میں تو گوگل سے بات کر رہی تھی" " ۔وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ یہ موا" گوگل" کون ہے ۔جس سے پٹر پٹر باتیں کر رہی ہو "۔وہ روٹی پکاتے پکاتے پکاتے اسکے سر پر پہنچ گی تھیں ۔ "ارے اماں' ہمیں اگر کچھ بھی معلوم کرنا ہو تو گوگل مدد کرتا ہے" ۔اس نے آسان لفظوں میں سمجھانا چاہا ۔ "مطلب' اسکو کام دھندہ نہیں ہے اور"...." تم کو بھی نہیں "۔"یہ تو پتا لگ رہا ہے" ۔ "اففوہ اماں

شفق

شفق  ایک سچی کہانی  "ایکسکیوزمی! ۔کیا مجھے آپ کے نوٹس مل سکتے ہیں" ۔میں جو لائبریری میں ایک کتاب لیۓ بیٹھی تھی ۔اس آواز پر میں چونک گئ۔میں نے سر اٹھایا ۔میں اسے جانتی تھی ۔بلکہ کالج کی ہر لڑکی اسے جانتی تھی ۔وہ بے حد مقبول لڑکی کالج کے اونر کی پوتی تھی ۔ان کا خاندان شہر کا سب سے معزز خاندان تھا ۔وہ ایک درگاہ کے سجادہ کی پوتی تھی۔ وہ مجھے نہیں جانتی تھی ۔لیکن میں اس سے واقف تھی ۔لیکن اس سے بات کرنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ "اوہ! شیور؛یہ لیں" ۔میں نے اپنے نوٹس دیۓ تو وہ مسکراتے ہوۓ شکریہ کہتی چلی گئ۔      یہ میری اسکی پہلی ملاقات تھی ۔دوسرے دن نوٹس واپس کرتے ہو ۓ اس نے مجھ سے میرے سبجیکٹس پوچھے ۔میں اکیلی کھڑی تھی جبکہ اسکے ساتھ اسکے ایک فرینڈ تھی۔میں نے اپنے سبجیکٹس بتاۓ تو اسکی فرینڈ ہنستے ہوۓ اسکی طرف دیکھنے لگی۔ "یہ تو پورے کے پورے تمہارے سبجیکٹس کامبی نیشن ہے شفق" ۔شفق یہ سنکر مسکرائ۔جوابا میں بھی مسکرائ ۔میں نے اسکی فرینڈ سے اسکے سبجیکٹس پوچھے تو اس نے ہسٹری بتایا۔ "ہسٹری ،میں ہسٹری نہیں لے سکتی تھی کیونکہ تاریخیں کبھی یاد ہی نہیں رہ

بارش کی شر انگیزی

بارش کی شر انگیزی  چلیں ،آخر بارش کا موسم آہی گیا ،بارش بھی ہمارے ملک کی ٹرین کی طرح اکثر دو تین مہینے لیٹ چلتی ہے ۔دیر سے آتی ہے اور شرمچاتے جاتی ہے ۔اب اس کو شر انگیزی نہیں تو اور کیا کہیں ہم نے  ذرا سی بارش کیا دیکھی اور پکوڑے بنانے چلے گۓ اور ابھی بیسن‌ لیا بھی نہیں   کہ بارش کسی منچلی محبوبہ کی طرح ایک جھلک دکھا کر غائب ہو گئ ۔چونکہ اس پر دھوپ کڑی نظر رکھی ہو ئ ہو تی ہے ۔بارش کو کچھ مو قعہ  ہی ملتا نہیں کہ کچھ اٹھکیلیاں کر سکے ۔اب جیسے بتا یا ناں ۔کہ پکوڑے بنانے تک بارش ختم بھی ہو جاتی ہے ۔اور ہم جل کڑھ کر صرف چاے پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔جب چاۓ پی لیتے ہیں تب پھر موسلا دھار شروع ،مطلب ، وہ صرف  ہمیں جلانے کا پروگرام بنا کر آتی ہے ۔ بارش جب جب آتی ہے محکمہ مو سمیات کی نوکری کے لالے پڑ جاتے ہیں۔اگر وہ شدید بارش کی پیشن گوئ کر دیں تو اس دن بارش ہی نہیں ہو تی ۔وہ بوندا باندی کہیں گے تو یہ موسلادھار بن‌جاتی ہے ۔وہ گرج چمک کہتے ہیں تو یہ گھپ اندھیرےکا سماں کرے گی۔وہ "موسم خشک رہے گا" تو یہ سارے ماحول کو تر بتر کرے گی ۔جیسے طنزیہ کہ رہی ہو ۔اور کرو پیشن گوئ ۔آخر میں موسمیا

عورت اور مزاح ۔۔۔۔۔ایک مزاحیہ تحریر

عورت اور مزاح ۔۔۔۔ ہم بہت سنجیدگی سے بیٹھے مزاح لکھ رہے تھے کہ ہمارے ایک کرم فرما مزاح نگار آۓ ۔انداز ایسا تھا جیسے جانا چاہتے کہیں ہوں اور غلطی سے آگۓ ہوں ۔ہم نے ان‌پر ایک نگاہ  ڈالی ۔وہ آۓ ،بیٹھے،پھر اٹھے،گرتے گرتے سنبھلے اور پھر گر گۓ ۔ "ارے! آپ اس طرح گری ہو ئ حرکتیں کیوں کر رہے ہیں "۔ہمارے منہ سے نکلا ۔ "ہم کوئ گرے پڑے نہیں ،مرد مزاح نگار ہیں" ۔وہ اٹھے ۔ہم مسکراۓ۔ "جی ،جی ،آپ گرےہوۓ مزاح نگار ہیں" ۔ "آپ کیا کر رہی ہیں" "مزاح لکھ رہے ہیں"  ۔ "مزاح خون جگر سے لکھا جاتا ہے" ۔ "ہم بھی تو سرخ روشنائ لے کر قلم کا خون کر رہے ہیں ۔" "اونہہہہ ۔سرخی تو بس آپ اپنے چہرہ پر لگا لیں" ۔ "ہمیں سرخ رنگ پسند ہی نہیں" ۔ "آپ کے ہاتھوں میں بیلن سجتا ہے "۔وہ بھناۓ۔ "ہاں! جبکہ وہ سر پر بھی بجتا ہے" ۔ہم نے بھی ترکی بہ ترکی کہا۔ "آپ کو کوفتہ٫ بریانی٫ رس گلہ پر دھیان دینا چاہیۓ۔" " اور آپ کو بھی تو کوفتہ٫ بریانی ٫رس گلہ پر ہی دھیان دینا چاہیۓ ۔کہیں کچھ غلطی سے کوفتے