اشاعتیں

جنوری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آسماں سے پار

وہ کچن میں کام کر رہی تھی ۔گاہے بگاہے اس پر بھی نظر ڈال رہی تھی ۔وہ صوفہ پر دونوں بازو ڈھیلے ڈھالے انداز میں چھوڑے متفکر سا بیٹھا تھا۔اس کی پیشانی پر تفکر کی گہری لکیریں اسکے اندرونی خلفشار کو ظاہر کر رہی تھیں ۔"کیا ہوا۔" وہ بلآخر پوچھ بیٹھی۔  "کچھ نہیں بس ڈاکٹر نے گردوں کے ٹسٹ کا کہا ہے ۔ تو بس اسی لیۓ پریشان ہوں کہ اگر گردوں کا مرض نکل آیا تو میرے لیۓ اور مشکلیں بڑھیں گی"۔ اس نے پریسکریپشن سامنے ٹیبل پر رکھ دی تھی اور خود صوفہ کو ٹیک لگا دی تھی۔  "اوہ" ۔ اسکے منہ سے اتنا ہی نکلا ۔  "لیکن آپ پریشان نا ہوں ۔ضروری تو نہیں کہ آپ کے کڈنی خراب ہی ہوں" ۔ وہ اسے ہمت بندھانا چاہتی تھی۔ حالانکہ وہ خود اندر ہی اندر ٹوٹ سی جا رہی تھی۔ وہ پچھلے پانچ سال سے ذیابطیس کے مرض میں مبتلا تھا۔ "شزا۔ تم بھی ۔ تمہیں پتا نہیں کہ ذیابطیس میں سب سے زیادہ گردے متاثر ہو تے ہیں ۔اور میں ایک پریکٹکل انسان ہوں ۔اب تم مجھے یہ مت بتاؤ کہ کیا ہو گا اور کیا نہیں ہوگا" ۔ وہ چڑ کر بو لا تھا ۔ "لیکن زوہیب دعا بھی ایک چیز ہو تی ہے ۔ اس سے تو ہر مرض ہر بیماری ٹل جاتی ہ

تیرے شہر میں

 ہم تیرے شہر میں آۓ تھے مسافر کی طرح  شہر شہر اوارہ گردی کی عادت تو کبھی نا تھی ۔اس لیۓ شہروں ،گاؤں کے بارے میں معلومات بھی کم ہی تھیں ۔ جب ابھی کالج میں تھے اور منگنی شدہ ہو چکے تھے تب ابا جی کو حیدرآباد شہر دکن گھمانے کا شوق پیدا ہوا ۔دراصل رشتہ دار کی دعوت آگئ تھی ۔ ہم جو ہمیشہ نانا کرتے تھے ۔ذوق سیاحت اچانک امڈ آیا کہ دیکھیں تو سہی آخر حیدرآباد کیا چیز ہے ۔ اباجی کے ساتھ شادی شدہ بہن اور ہماری چھوٹی بہن وہ بھی ساتھ چلیں۔ ۔  شام کی شادی تھی اور ہم دوپہر پہنچ گۓ تھے اپنے تایا کے گھر ۔تائ جی نے کھانا نکالا اور اصرار کر کر کہ کھانا کھلانے لگیں ۔ اور ہر تھوڑی دیر بعد ان کا یہ فرمانا کہ "بھئ ۔ابھی سیر ہو کر کھالیں ،سیر ہو کر کھالیں" ۔ ہمارے تو سر سے گزر گیا ۔ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا  کہ وہ کیوں ایسا کہہ رہی ہیں ۔ لیکن دعوت میں گۓ تو  پتا چلا ۔ کہ آیسکریم کی دعوت تھی ۔ تنا ول طعام کی نہیں ۔اف ۔ ہم زیادہ سے زیادہ کتنے آیسکریم کھا سکتے تھے ۔ تب سمجھ آیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھیں ۔ خیر ۔۔۔۔  اب آتے ہیں ان کے  شہر کی طرف ۔ اس شہر میں رونق بہت ہے ۔آدمی آجاتا ہے تو پھر بس جاتا ہے ۔اس

کافی یا چاۓ

 کافی یا چاۓ وہ دونوں ابھی ابھی کسی گروسری مارکٹ سے سیدھی کچن کیبینٹ میں پہنچیں تھیں ۔  کہاں سے آئ ہو ۔وہ براون کلر کی کافی تھی جو چاۓ سے مخاطب تھی ۔ چین سے ۔چاۓ نے اسے گھور کر  جواب دیا۔ اسے کافی کا اس غرور سے پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا ۔ ہمممم ۔کافی نے اداۓ بے نیازی دکھائ۔  ہونہہ ۔ایسے پوچھا جیسے میں گری پڑی ہوں ۔  اور تم ۔۔۔۔چاۓ نے لگے ہاتھوں اسکی اوقات جاننی چاہی ۔ افریقہ۔وہ ابھی بھی نخوت سے بولی تھی ۔  اور میری کئ اقسام ہیں ۔اور میں ایلیٹ کلاس سے بی لونگ کرتی ہوں ۔ اسکی اس بات پر تو چاۓ جلتے توۓ پر جا بیٹھی۔  تو میری بھی کئ اقسام ہیں ۔گنواؤں کیا ۔  اور میرے چاہنے والے تو بہت ہیں ۔کوئ گھر ایسا نہیں جہاں میری پکار نا ہو ۔ (اپنے آپ کو جانے کیا سمجھ رہی ہے ۔)۔ اوہ ۔ریئلی۔ لیکن میرے فین فالوونگ تو لاکھوں میں ہیں ۔کافی کی طنزیہ ہنسی اف۔۔  چاۓ جیسے کھولنے لگی۔  تمہیں لوگ صرف سردیوں میں منہ لگاتے ہونگے۔ میں تو ہر موسم کی رانی ہوں ۔ چاۓ اترائ۔  میرا تم سے کوئ مقابلہ نہیں ۔اس لیۓ پلیز تم تو چپ ہی رہو۔ اب کافی کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔ "بہت اعلی ذوق اور ہائ سوسائٹی کے لوگوں کی پسند کافی

محبت کی گنتی۔۔۔۔۔ہر دور کا المیہ

 محبت کی گنتی ۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں باہر آنگن میں سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔ انکے چہروں پر کئ زمانوں کا درد بکھرا تھا ۔ دیکھو ۔عمر ۔ابا کو  دس دن میں رکھوں گا ۔اور تم امی کو دس دن  رکھ لینا ۔اور رہے دس دن تو وہ ثمن آپا اور فری آپا آپس میں بانٹ لیں گی۔ یہ فخر صاحب کا سب سے بڑا بیٹا "بڑا" بن کر ان کا" بٹوارہ "کر رہا تھا ۔اور وہ سب انہیں رکھنے  کے ،انکی دیکھ بھا ل کرنے کے دن گن گن کر آپس میں بانٹ رہے تھے ۔ لیکن بھائ میں امی کو تو رکھ لوں گی لیکن ابا کافی غصیلے ہیں اور انکے رویہ سے خاور بہت چڑتے ہیں ۔ یہ ثمن آپا کی آواز تھی ۔ ثمن آپا ۔فریحہ  آپا یہ آپ دونوں سوچ لیں ۔ لیکن ابا کو رکھنا ہی پڑے گا ۔یہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑے گا ۔ہم سب بھی تو رکھ رہے ہیں ۔ ہم میں سے تو کوئ اعتراض نہیں کر رہا ۔ ہم سب کو" صبر" سے کام لینا ہے ۔ ہاں اور نہیں تو کیا ۔اب امی ہی کو دیکھ لیں ۔وہ کونسا خاموش رہتی ہیں ۔ہر بات میں تو انہیں کیڑے نکالنے کی عادت ہے ۔یہ کرو وہ نا کرو رزق مت پھینکو ۔اتنا تیل ضائع کیوں کیا ۔فلاں پکاؤ ۔چاول کچے رہ گۓ ۔اور پھر ہر دن انکے لیۓ  ۔انکا پرہیزی کھانا بنانا ۔بھئ ان ک

قید حیات ۔۔۔۔۔مزاحیہ تحریر

 قید حیات "افوہ ۔میں تمہیں بتانا بھول گیا۔آج دوستوں کو دعوت دی ہے بلکہ دی کیا  ۔ان کو یاد تھا کہ آج ہماری شادی کی پچیسویں سالگرہ ہے۔ تو۔۔۔۔۔۔"یہ ہمارے شوہر تھے جو اخبار ہاتھ میں لیے ایسے کہہ رہے تھے جیسے کوی نیوز سنا رہے ہوں ۔  "کیا"۔ہمارا دماغ بھک سے اڑ گیا ۔کہاں ہم  گھومنے پھرنے کا پلان کر کے بیٹھے تھے اور کہاں یہ دعوت ۔  "ہماری شادی کی سالگرہ اور یاد انکو رہی" ۔ہم نے تعجب سے انہیں دیکھا ۔ "پندرہ اگست ۔۔۔یوم آزادی ۔۔۔کیسے بھول سکتے تھے وہ ۔ بندہ ایک چھٹی کی خاطر نیشنل ہالی ڈے کو شادی رکھ لیتا ہے ۔تو چاہے ہمیں یاد ہو نا ہو لوگوں کو یاد ضرور رہتا ہے ۔" وہ اخبار میی سے ہی بولے ۔ "حالانکہ ۔قومی آزادی کے دن مجھے قید کر دیا گیا ۔اسکی کسی کو فکر ہی نہیں "۔ وہی اخبار کے اندر سے ہی کہا گیا ۔ "ااوہ" ۔ہم نے انہیں گھورا ۔مگر وہ اخبار کی اوٹ میں تھے بچ گۓ۔  "لیکن میں دس لوگوں کا پکوان کیسے کروں ۔ایک تو بچے امی کے یہاں چلے گۓ ۔اور ماسی کو بھی آج ہی چھٹی لینی تھی" ۔ ہم پر اچانک گرہست عورت حملہ آور ہوئ اور ہم بالوں کا جوڑا بناتے ک