اشاعتیں

اگست, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

عورت اور مزاح ۔۔۔۔۔ایک سنجیدہ تحریر

عورت اور مزاح عورتوں نے مزاح میں کچھ نام پیدا نہیں کیا . ۔مرد کہتے ہیں۔کہ "مزاح میں جھنڈے انہوں نے ہی گاڑے ہیں" تو ہم کونسا آپگے گاڑے جھنڈے اکھاڑنے میں لگے ہیں ۔آپ نے وہ میدان مارا ہے جسے اوائل میں تیسرے درجہ کا ادب کہا جاتا تھا بلکہ شاید ابھی بھی کہتے ہو ں ۔عورت ہمیشہ نفیس طبعیت کی مالک ہو تی ہے ۔ایسی جگہ وہ اپنا قدم رکھنے سے پہلے کئ بار سوچتی ہے جہاں چھوٹتے ہی اسے چھچھورپن کا سامنا کرنا پڑے ۔مزاحیہ اداکاروں کو اکثر چھچھورے ہی کہتے تھے اور انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔تو بھلا عورت ایسی جگہ جاتی ہی کیوں جہاں اس پر مزاح کی آڑ میں ،جملے کسے جائیں۔اس لیۓ وہ اس سے دور رہی ۔لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ منہ بناے بیٹھی رہی ۔اس نے مزاح کو چھوڑ ہر جگہ اپنے قدم جماۓ اتنا کہ مرد بس دیکھتا رہ گیا ۔ایک ہاتھ میں قلم اور ایک ہاتھ میں بیلن لیۓ وہ کئ میدان سر کرنے لگی۔اور  آج تک کر رہی ہے ۔ لڑکیوں نے امی کی جوتی کو مزاحیہ استعمال کیا ۔حالانکہ اگر دیکھا جاۓ تو امی کی جوتی لڑکیوں کو کم ان‌جوا نوں کو زیادہ پڑتی ہے ۔(بچیوں کی تو اکثر لڑکی ہو نے کی وجہ سے بچت ہو جاتی ہے ۔لیکن‌لڑک

بکرا،پل اور ہم ۔۔۔۔۔

بکرا ،پل   ا "مما مما ۔ مبارک ہو ۔ آخر وہ مہمان  آرہا ہے ۔ ": ہمارے بیٹے نے فون پر ہمیں مبارک باد دی ۔  " ہاۓ اللہ ۔ سچ ۔ کب تک آجائیگا وہ "   "شام تک گھر میں ہو گا ۔آپ تیاری کر لیں "  "اچھا ۔ بالکل تیاری تو کرنی ہے آخر اسپیشل مہمان ہے وہ ۔‌ ۔‌" ہم نے بھی کچن میں ٹہرے ٹہرے پرجوش سے انداز میں کہا ۔ ۔  اور شام تک ہم ایک عدد رسی ، کھانے کی ٹوکری اور فون کے ساتھ تیار  تھے ۔  رسی ۔‌آپ پریشان ہو گۓ کہ ایک مہمان کے لیۓ رسی کیوں ۔ لیکن جب مہمان بقر عید کا بکرا ہو تو رسی تو ہو گی ہی ۔‌ اور فون ۔۔‌۔۔۔۔ فون تو ہمیں اس کے فوٹوز ،اور اس کے ساتھ سیلفیز وغیرہ کے لیۓ چاہیۓ تھا ۔‌جن کو ہمیں سوشل میڈیا پر ڈال کر واہ واہ سمیٹنی تھی ۔  ہم اب اس مہمان یعنی بکرے کی آمد کے لیۓ بے چین تھے ۔‌یہ نہیں تھا کہ ہم پہلی بار قربانی دے رہے  تھے ہم ہر سال ہی قربانی دیتے تھے اور ہر سال ہمارا ایسا ہی حال ہو تا تھا ۔‌ہم نے سارا سامان آنگن میں رکھا ۔ آنگن صاف کیا ۔ پانی بھر کر رکھا ۔ اور خود اپنا نیا نکور لان کا کرتا میچنگ چوڑیاں ۔ اور ایک اچھا سا ہیر اسٹائل بنا کر بیٹھ گۓ ۔  حسیب 

ہاۓ یہ کیوٹ بزرگ

ہاۓ یہ کیوٹ بزرگ ۔۔۔۔۔ اف اللہ ۔ہم نے تو آپ کو  بور ہی کر دیا ہو گا بزرگ بزرگ لکھ  کر ،کچھ لوگوں کے لیۓ تو یہ بزرگ نامہ بن چکا ہے ۔جسے وہ بڑی عقیدت سے پڑھ رہے ہیں ۔اگر کسی نے نہیں پڑھا تو اب پڑھ لیں ۔ویسے یہ کیوٹ والی بزرگ کی آخری قسط ہو گی ۔ آن لائن شاپنگ بڑی مزے دار لگتی ہے ہمیں ۔اس لیۓ یونہی بیٹھے بیٹھے ہمیں ہماری ساس امی کا خیال آیا تو یاد آیا کہ انکے پاس تو لاٹھی ہی نہیں ہے ۔ارررررے مارنے کے لیۓ نہیں بھئ بس سہارے کےلیۓ ،تاکہ ان کو چلنے میں آسانی ہو ۔بس کیا تھا۔ہم نے ایک لاٹھی مطلب اسٹک منگوا لی ۔یہ لاٹھی ایڈجسٹیبل تھی یعنی اسکا سایئز ہم قد کے حساب سے ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔ہمارے بیٹے نے دادی کے قد کے حساب سے چھڑی ایڈجسٹ کر کہ دی ۔لیکن انہیں پسند نہیں آئ۔اور انہوں نے اپنے قد سے بھی اونچی یہ لاٹھی کر لی۔اب جب یہ اسکو لیکر چل رہی تھیں تو عجیب لگ رہی تھیں مگر کیا کر سکتے تھے ۔کچھ معاملہ میں یہ اتنی ضدی ہو تی ہیں کہ پو چھیں مت ۔اس لیۓان کو انکے حال پر چھوڑ دیا تھا ہم سب نے ۔انکی مرضی سے جیسے وہ چاہیں استعمال کریں ۔وہ اسے استعمال کر رہی تھیں یہی بہت بڑی بات تھی۔ پہلے ہفتہ تو یہ اسے
دفتر اور وہ بھی سرکاری ہو تو سمجھیے بیڑہ غرق ،نہیں نہیں اسکا نہیں آپ کا،کیونکہ ایسے دفاتر ہو تے ہیں جنہیں دیکھ کر سوچنا پڑ تا ہے کہ یہ بنے تو کیوں بنے  ۔سرکاری دفاتر میں جس انداز سے کسی بھی عام آدمی کی  کھینچائ ہو تی ہے اس سے یہ بات ہم بخوبی کہ سکتے ہیں کہ یہ تو  زحمت ہوگئ سہولت  کے بجاۓ۔اگر کسی کو یقین نا آرہا تو کسی دن ان دفتروں کے چکر لگا آۓ اسے یقین آ جاۓ گا۔        ایسا ہی یقین پانے ہمارے میاں جی نے ہمیں سرکاری دفتر کا راستہ دکھایا۔ہمیں اپنے بچوں کے کاسٹ سرٹیفیکٹ بنانے تھے جو کہ آگے اعلیٰ تعلیم کے لیے ضروری تھے۔ساتھ کچھ رقم بھی دی اور ہدایات بھی کہ وقت پڑنے پر خرچ کر لو ۔ " زیادہ خوش مت ہوں ،شاپنگ کے لیےنہیں دے رہا ۔کاروائ کے دوران شاید ضرورت پڑے اس لیے دے رہا ہوں ۔" انکی اس بات پر ہم کھسیا گۓ  خیر ،ہم سیدھے دفتر گۓ۔دفتر کا ماحول عجیب ہی تھا۔اس کیبن میں کل چار افراد بیٹھے تھے ۔ایک صاحب فارم چیک کر رہے تھے ۔جبکہ دوسرے صاحب پوری آفس کو چیک کر رہے تھے۔اگر کوئ غلطی سے بھی کچھ آواز کرتا تو یہ ضرور ٹوکتے"۔خاموش بیٹھیے ۔یہ آفس ہے آپ کا گھر نہیں"۔لیکن یہ خود اپنے

سرکاری دفاتر. in complete

سرکاری دفتر دفتر اور وہ بھی سرکاری ہو تو سمجھیے بیڑہ غرق ،نہیں نہیں اسکا نہیں آپ کا،کیونکہ ایسے دفاتر ہو تے ہیں جنہیں دیکھ کر سوچنا پڑ تا ہے کہ یہ بنے تو کیوں بنے ،اور اگر نا بنتے تو کیا عام آدمی کسی نقصان سے دوچار ہو تا ۔شاید ہاں اور یقیناً نہیں کہ سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ دفاتر بنے تو عوام کی سہو لت کے لیے مگر عوام اس سے اتنی دل برداشتہ ہے کہ جل کر سوچتی ہے ۔" ایسی سہولت دینے سے تو اچھا تھا نا دیتے ۔ہم کیا مرے جارہے تھے ،سہولت ،آسانی کے لیے ۔یہ سرکاری دفاتر تو الٹا زحمت شدید دیتے ہیں۔عوام کو ۔بندہ اگر اچھے برانڈ کے جوتے پہنے تب بھی جوتے گھس جایئں گے مگر ہونے کا کام بھی نہیں ہو گا۔اسکی ضمانت ہم بھی دیں گے۔یقین نا آۓ تو کسی دن سرکاری دفتر کے چکر لگا کر آئیں۔آپ کو ہماری ہر بات کا یقین آ جائے گا۔                 اس دن جب ہم کھانے بیٹھنے ہی والے تھے کہ میاں جی نے بڑے انداز سے پو چھا ۔ کچھ کھاؤ گی ؟ ہم دل ہی دل میں مسکرانے لگے ۔پتا نہیں کیا کھلانا چاہتے ہوں ۔شاید آیسکریم ،یا پھر گول گپے۔ہم اتنا ہی سوچ سکتے تھے کیونکہ اس سے آگے کبھی وہ گۓ ہی نہیں۔ "کیا " دھکے ،میں چاہ رہا
ہم آجکل پکوان کبھی نہ کرنے کی قسم کھاے۶ ہوے۶ ہیں کیونکہ اس پکوان کی وجہ سے ہم ایسے تلخ تجربہ سے گزرے  ن ہیں کہ ہم نےپکوان سے ہی توبہ کرلی۔ اب قصہ کچھ یوں ہے کہ گھر میں امی وغیرہ باہر جارہے تھے اسی وقت بڑے ابا کا فون آیا کہ وہ گھر تشریف لارہے ہیں۔امی نے ہمیں کہا کہ ھم آنے تک تم کھانا بنالینا۔ہم پریشان کہ کیا بنای۶یں۔امی نے کہا اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ،کھچڑی انڈوں کا سالن روٹی وغیرہ بنا لینا،فریج میں گاجر پڑے ہیں حلوہ کی تیاری کرلینا میں آکر بگھار دوں گی۔ہم نے انہیں دیکھا وہ ایسے اناڑی کو جنگ کرنے میدان جنگ میں بھیج رہی تھیں جسے تلوار پکڑنا بھی نہیں آتا۔خیر وہ سب تو چلے گے۶اور ہم نے کمر کس لی اور میدان جنگ میں جیسے سچ مچ کود پڑے۔ سب سے پہلے ہم نے کھچڑی بنانے کا سوچا ،کھچڑی کو اچھی طرح گرم مصالحہ وغیرہ سے بگھارا اور پھر بریانی کی طرح نتھار لیا ۔اس طریقہ سے کچھ اور ہی چیز بن گی۶ ،ہم خود بھی اسے کچھڑی کہنے سے گھبراے۶،نہ گھی نظر آرہا ہے ،نہ گرم مصالحے ،کہیں نرم  کہیں ادھ پکے،اف توبہ ،یہ کیا غضب ہوا ہم سر پکڑ کر رہ گے۶،ہم نے اسکو یونہی رکھدیا ۔ ہم نے سوچا اب ہم روٹی