اشاعتیں

جون, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
آن لائن پیسے کمانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اجی انگور کھٹے ہیں۔ پیسہ کمانا کسے اچھا نہیں لگتا۔جہاں بات پیسہ کی ہو ہماری رال تو ویسے ہی ٹپک جاتی ہے۔پتا نہیں ہمارے لیے پیسہ اتنا مقناطیسی کشش کیوں رکھتا ہے ۔جہاں پیسہ دکھا وہاں ہم اپنی دیڑھ دیڑھ گز لمبی زبان نکالے پہنچ جاتے ہیں ۔چلوایسی جگہ پر گے۶جہاں ہماری پہنچ ہے تو کوی۶ بات نہیں پر کوی۶ بندہ انٹرنٹ کی دنیا میں بھی چلا جاتاہے کیا پیسے کمانے کے لیے ۔جی ہاں سننے میں تو تھوڑا عجیب تھوڑا بےوقوفی والا کام ہی نظر آتا ہے ۔لیکن ہم ہیں ہی عجیب وغریب  ۔ہماری امی نے ہماری ولادت پر ہی فرمایا تھا کہ یہ تو پیدا ہی الٹی ہوی۶ ہے اسکا ہر کام۔الٹا ہی ہوگا۔اب امی کی بات ہم۔کیسے ٹال سکتے تھے سو جی جان سے ہم کوشش کرتے رہے کہ ہمارا کوی۶ کام سیدھا نہ ہو۔اس طرح سے ہم امی کی امیدوں پر پورا اترتے رہے۔ تو ہم کہاں تھے ۔ہاں  یاد آیا انٹرنٹ سے پیسے کمانے کا خیال۔ہمیں بیٹھے بیٹھے ہی یہ فتور دماغ میں سمایا تھا کہ ہم بھی آن لائن پیسے کما سکتے ہیں ۔ویسے بھی ایسے خرافاتی خیال ہمیں بیٹھے بیٹھے ہی آتے ہیں ۔اور بیٹھے بیٹھے ہم اپنی جگہ سے اچھل پڑتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ہم اچھلنے سے م

اۓ میرے نصیب کے چاند

آزاد نظم اۓ میرے نصیب کے چاند میرے دل کے آنگن میں  اندھیرا ہے بہت اس لیۓ تو بن کہ ماہ تمام  میری سونی راہوں میں اجالا بکھیر دے یا تیری چاندنی کی کرنیں اس طرح پھوٹیں جس سے مجھے  راہ سجھا ٸ دے میری زندگی کی منزل ملے اۓ میرے رب  تو تو دو جہاں کا رب ہے  خالق ہے  تیرے یہاں کس چیز کی کمی ہے  ایسی خوشی جس میں الم ہی الم ہوں  مجھے منظور نہیں  اس لیۓ مرے خالق  مجھے وہ غم دے  جس سے مجھے خوشی ملے از نازنین فردوس
قدیم زمانہ کی فن تحریر اور اس زمانہ کی فن تحریر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔آج کل کے قلمکار کی تحریر ایسی ہوتی ہے کہ جیسے وہ دنیا سے بیزار ہو چکا ہو،فن تحریر سے اوب گیا ہو،حسرت ویاس کی تصویر ہو گیا ہو ،ناقابل فہم ٹیڑھے میڑھے راستوں کی طرح تحریر ہوتی ہے جسکو پڑھنے والا بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ عجیب داستاں یہ کہاں شروع کہاں ختم  سوچتا رہ جاتا ہے۔ اگر دیکھا جاے۶ تو ایک قلمکار کا دایرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے۔وہ اپنے قلم سے بہت کچھ کر سکتا ہے زمانہ میں انقلاب لا سکتا ہے ۔ذہنی تربیت دے سکتا ہے۔اذنی تحریر کو مقصد سے آراستہ کر سکتا ہے اسکو مفید بنا سکتا ہے۔مگر آج کا قلمکار ،آج کے قلم کی طرح یوز انڈ تھرو ہو گیا ہے ۔یعنی پڑھو اور بھول جاو۶ ۔تحریر بے مقصد ،غیر دلچسپ،ناقابل فہم ہوگی تو کون قاری اسکو یاد رکھے گا۔آج کے قلمکار کی تحریر ایسی ہوتی ہے کہ بس  پہلے اہل قلم اپنی قلم کو تلوار بنا لیتے تھے،سوے۶ ہوے۶ ذہنوں کو جگانے کا کام لیتے تھے ۔نیز قلم سے نشتر کا کام لیتے تھےمعاشرہ میں رائج فرسودہ رسم و رواج اور برایوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔مگر صاحب آج کا قلمکار،جی ہاں قلم تو
یوں تو قلم سے انسان کا رشتہ پرانا ہے۔مگر زمانہ قدیم میں قلم کی جگہ پرندوں کے پر وغیرہ استعمال میں آتے تھے۔رفتہ رفتہ زمانہ کی ترقی کے ساتھ قلم کو بھی ترقی سوجھی اور وہ پرانے طرز کے قلم سے جدید قلم بن گیا ۔اور اس نے اپنا چولا ہی بدل  دیا۔اب بھلا اگلے وقتوں کے لوگ (چچا غالب) کہاں سوچ سکتے تھےکہ آگے ایسا بھی ہوگا کہ حضرت انسان لکھیں گےمگر پر والے پن سے نہی ،بال پواینٹ  پن سے جس میں نہ سیاہی دوات کی جھنجھٹ ،نہ روشنای۶ کا گہرا ،مدھم ہونے کا ڈر ،قلم ہاتھ میں لیا تو بس لکھتے چلے جاو۶ ,لفظ ہاتھوں اور قلم سے جیسے پھسلتے جا رہے ہیںاور کاغز پر ابھرتے چلے آرہے ہیں۔بال پن کا اک فایدہ ہے کہ لفظ تیزی سے بنتے چلے جاتے ہیں۔اب زمانہ بھی تو بھاگتا ہوا زمانہ ہے۔اب کون چچا غالب کی طرح قلم دوات لیے ،بیاض لیے گھنٹوں مشق سخن کرے گا ۔لیکن پہلے بھی تو اہل قلم ہوتے تھے ،کہاں وہ تحریر کی خوش خطی،جمے ہوے الفاظ ایسے جیسے موتی پروے۶ گے۶ ہوں۔خیال کی ندرت ایسی کہ پڑھتے ہی طبعیت باغ با غ ہو جاتی تھی بلکہ آج بھی ہوتی ہے۔آج بھی اس زمانہ کی تحریر پڑھیں وہ تحریر تروتازہ محسوس ہوگی۔پڑھنے کے بعد دل دماغ پر اک سرور سا چھا

عورت اور کار ڈرایونگ مزاحیہ تحریر

عورت اور کار ڈرائیونگ ا" ٹھیک ہے ۔ اب ہماری یہ مختصر سی ٹی پارٹی اپنی اختتام کو پہنچی ۔ اب ہم اجازت چاہتے ہیں ۔ " بیگم نفیس نے اپنا چاۓ کا کپ ٹیبل پر رکھا تھا ۔ اور ہم نے بھی شکر کی سانس لی ۔ وہ یوں کہ آج اس ٹی پارٹی میں ہم تیسری بار مدعو تھے ۔ ورنہ ایسی پارٹی وغیرہ میں حصہ لینا یا آنا ا ہمارا مشغلہ ہر گز  نہیں تھا ۔  " سمیہ ۔ آپ ہمیں ڈراپ کر دیں گی " ہم نے لجاجت سے سمیہ کی جانب دیکھا تھا ۔ جو کہ ہماری پڑوسن تھی۔ لیکن  سمیہ سے پہلے بیگم نفیس  نے  ہمیں دیکھا ۔ آ"آپ کے پاس تو خود کی کار ہے ۔ پھر سمیہ کیوں ڈراپ کرے " ان کے چہرے پر  حیرت کا تاثر ابھرا ۔ " جی کار تو ہے لیکن ڈرائیور رکھا نہیں ۔ شوہر تو آج سنڈے منارہے ہیں ۔اس لیۓ کیب کر لی تھی  اب سمیہ کا گھر راستہ میں ہی ہے تو اس کے ساتھ ہی چلے جائیں گے ۔ "   ہمارے اتنا کہنے کی دیر تھی  بیگم نفیس پر تو جیسے اچانک عورتوں کے مساوی  حقوق خودمختار عورت اور جانے کون کون سی عورت کے کردار " جن" بن کر حاوی ہو گۓ اور وہ لگیں تقریر کرنے جس کا مختصراجائزہ یہ تھا کہ ہمیں  ہر کام خود کرنا چاہیۓ ۔کار بھی