اشاعتیں

اپریل, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 51

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 51  وہ سب سے مل کر باہر آئ تو وہ بائیک سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا ۔ اور اب اسے آتا دیکھ رہا تھا ۔اسکے قدموں کی آہٹ دل میں محسوس کر تا ہوا ۔ اسکے قدم من من بھر کے ہو رہے تھے ۔  " چلیں ۔ "  وہ جب قریب آئ تھی تو وہ سیدھا ہوا تھا ۔اس نے اٹبات میں سر ہلایا تھا ۔اور بیٹھ گئ تھی ۔  راستے بھر دونوں نے کوئ بات نہیں کی تھی ۔ وہ ناراض تھی ۔ اس پر اپنی ناراضگی جتانا چاہ رہی تھی۔ جب اس نے بائیک روکی تو وہ چونکی تھی ۔ ایک بے حد جدید طرز کے بنے ایک خوبصورت سے گھر کے سامنے وہ دونوں کھڑے تھے ۔ طہ نے اب آگے ہو کر اس گھر کے گیٹ کا لاک کھولا تھا ۔وہ بے تابی سے اندر جانا چاہ رہی تھی۔ مگر اس نے روکا ۔ " کتنی جلدی ہے ۔ایسے ہی چلی جائینگی ۔ رکیں ۔" وہ کنفیوز سی ٹہری تھی ۔اس نے اپنا ہاتھ اسکے سامنے پھیلا یا تھا ۔ " اب چلیں ۔ " اس نے چونک کر اس ہاتھ کو دیکھا تھا ۔ وہ منتظر تھا ۔اس نے ہاتھ تھامنا ہی تھا ۔ جو رشتہ بندھا تھا یہ اسکے تقاضے تھے ۔ اس نے جھجھک کر اپنا نم ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیا تھا اب دونوں اندر قدم رکھ رہے تھے ۔  طہ نے ہال کی لائٹس جلائ تھیں ۔ اور تہذیب دم ب

وہ انعام ہے میرا

 ۔اسکی تائ تو ہر رمضان نۓ برقعہ سلواتی تھیں پھر ان پر  مختلف رنگ  کے سکارف ۔ اسکی کزنز کا بھی وہی حال ہوتا تھا ۔ وہ بھی نت نۓ اسکارف پہن کر جاتیں ۔اور پھر اس سے کہتیں تھیں ۔ " روحی ۔تم تو رمضان میں باہر نکلتی ہی نہیں ہو ۔ ذرا باہر نکلو تو دیکھو ۔کتنی رونقیں ہو تی ہیں رمضان میں ۔ کتنا اچھا لگتا ہے ۔ اور بازار وں کا تو پوچھو مت ۔ اف ۔ کیا سماں ہوتا ہے" ۔ وہ سب اتنی پرجوش ہوتیں کہ وہ انہیں حیرانی سے دیکھنے لگتی ۔‌وہ کونسی رونق کی بات کر رہی تھیں  ۔رمضان کی رونق تو راتوں میں نمازوں میں ہو تی ہے ۔ تراویح میں ہو تی ہے ۔تہجد میں محسوس ہو تی ہے ۔رمضان کا حسن تو سجدوں میں ہوتا ہے بازاروں میں نہیں ۔  اسے تو بازاروں سے نفرت ہو گئ تھی ۔  اس وقت سے جب دو تین سال پہلے  رمضان میں یونہی کزنز کے کہنے پر چوڑیوں کے لیۓ نکلی تھی ۔ اس وقت وہ ا بھی اتنی باشعور نہیں تھی ۔ وہ سب کی سب چوڑیاں دیکھ رہی تھیں ۔ وہ بھی ایک جانب ٹہری چوڑیاں دیکھ رہی تھی جب اسکی نظر ا ایک کمسن لڑکی پر پڑی ۔ وہ چوڑی والے انکل کو چوڑیاں پہنانے کے لیے کہہ رہی تھی ۔ یہ ایک عام بات تھی اکثر چوڑی والے یونہی پہناتے ہیں ۔ اس نے دی

رمضان ۔۔ماہ رحمت. وہ انعام ہے میرا

وہ انعام ہے  میرا  جیسے ہی مغرب کی نماز ختم ہو ئ وہ سب چاند دیکھنے چھت پر چلی گئیں تھیں ۔ وہ ،حمنہ ،علیزہ اور کشف ۔ان سب کو چاند دیکھنے کی شدید چاہ تھی ۔  " ارے وہ دیکھو ۔ چاند ۔"حمنہ چلائ اور وہ سب اس چاند کو دیکھنے لگے جو ماہ رحمت کی نوید لیکر آ یا تھا ۔ " ہاۓ اللہ ۔ کتنا باریک سا ہے ۔" "نظر آگیا غنیمت ہے ۔ " "چلو کل سے روزے شروع ۔" وہ تینوں "امی چچی رمضان مبارک کا چاند نظر آگیا "پکارتی نیچے چلی بھی گئیں اور وہ یعنی روحی اکیلی رہ گئ۔ اس نے اپنا دوپٹہ سر پر لیا تھا اور  چاند کو دیکھ کر اپنی مخصوص دعا مانگی ۔ "حرام سے بچنے کی ۔اور حلال پانے کی دعا ۔" وہ دعا مانگ کر نیچے آئ تھی تو سب کی چیخ و پکار بھی سنائ دے رہی تھی ۔  حمنہ کشف اب اپنے فرینڈز کو رمضان مبارک کا پیغام دے رہی تھیں۔  تائ تھیں تو انکے اپنے مسئلے  تھے ۔ " میں نے تو کچھ بھی تیاری نہی کی سحر کی اور چاند نظر آگیا ۔ اب کیا پکاؤں سحر کو ۔ "  "آج کے بجاۓ کل نظر آتا تو اجھا تھا ۔ مرغ تو منگوا لیتی "  "چلو ۔کچھ نہیں قیمہ تو ہے "۔ وہ بولتی اب اپ

چار مینار ۔۔۔۔۔حیدرآباد کا دل

 چار مینار ہم حیدرآبادیوں کے لیۓ اتنا ہی اہمیت رکھتا ہے جتنا تاج محل آگرہ کے لیۓ یا ایفل ٹاور پیرس کے لیۓ ۔یہ چار سو سالہ قدیم عمارت ہماری تہذیبی ورثہ اور تعمیرات کی ایک بہترین مثال ہے ۔ اس لیۓ اس کو ہم شہر حیدراباد کا دل کہیں تو غلط نا ہو گا ۔ ہم بھی بحیثیت حیدرآبادی چار مینار کے مداح ہیں اور بحیثیت خاتون اسے خریداری کا مرکز قرار دینے میں ہمیں کوئ مضائقہ نہیں ۔ ہم اس تہذیبی عمارت کے اتنے بڑے عاشق ہیں کہ اسکے خواب ہمیں  اکثر آتے رہتے ہیں اور یہ ہمارے خواب میں اکثر جلوہ نما ہو تا ہے ۔اس رات بھی چار مینار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے خواب میں جلوہ نما تھا اور ہم اس خوب صورت عمارت کے دیدہ زیب جلؤں کو دیکھ کر محو حیرت تھے۔ " تم ۔یہاں کیوں آۓ ہو ۔":یہ ہمارا پہلا سوال تھا چار مینار سے ۔ " جب تم ہر دوسرے دن میرے یہاں آ سکتی ہو تو میں کیوں نہیں آ سکتا ۔ " وہ بڑے کر وفر سے بولا ۔ اچھا ۔آ گۓ ہو تواپنا تعارف بھی کر وادو ۔ " ہم نے لگے ہاتھوں اپنا بھی مسئلہ حل کرنا چاہا ۔ " کیوں ۔ "  " کچھ نہیں دراصل ہمیں تعمیر نیوز کے لیۓ تم پر مطلب چار مینار پر اپنا مضم

میرے ہم نوا ۔۔۔۔۔قسط پچاس

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط پچاس  " تہذیب باجی تہذیب باجی ۔ آپ کو آپا جان نے تیار ہونے کے لییۓ کہا ہے ۔ " عابد اسے آواز دیتا آیا تھا جو صبح سے سر جھاڑ منہ پھاڑ بیٹھی تھی ۔  " میں نے کہا نا ۔مجھے تیار نہیں ہونا ۔ " وہ چڑ کر بولی تھی ۔ " لیکن وہاں صابرہ پھپھو وغیرہ سب آئیں ہیں سارے مہمان بھی آنے شروع ہو گۓ ہیں ۔ تو آپا جان نے مجھے بھیجا ۔ " عابد نے اسکے کپڑے ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا تھا ۔ " صابرہ پھوپھو ۔ آگئ ہیں ۔ اور کون کون آۓ ہیں ۔ " اس کا دل دھڑک گیا تھا ۔ " جی ۔پھو پھا ۔بھپھو اربیہ اظہار سب ہی " عابد جیسے یاد کرنے لگا ۔ " یہ سب ہی ہے ۔ " اس کا موڈ آف ہوا ۔ " ہاں سب ہی تو ہیں ۔ عابد حیران تھا کہ اس نے کس کا نام مس کیا ۔ " اب تم جاؤ ۔ میں ابھی تھوڑی دیر سے آ رہی ہوں ۔ " وہ اسے غصہ سے باہر بھیج کر خود پھر سے لیٹ گئ تھی ۔ " انا پرست ۔ میں نے بھی تیار ہی نہیں ہونا ۔ چاہے دنیا ہی ادھر کی ادھر ہو جاۓ ۔ " وہ پھر سے منصوبے بنا نے لگی تھی ۔ ":کتنا ضدی ہے ۔ اگر آ جاتا تو ۔۔۔" اس کی آنکھ نم ہوئ تھی ۔ **********

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 49

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 49   آج جمعہ تھا ۔ امی کی تیاری صبح سے ہی زور و شور سے تھی جبکہ وہ کچھ لو فیل کر رہا تھا ۔امی  بھائ کے لیۓ کپڑے ،بھاوج کو سوٹ اور تہذیب کے لیۓ بھی سوٹ لیۓ جا رہی تھیں ۔ آج ان کے پاؤں یوں بھی زمین پر  نہیں ٹک رہے تھے ۔ عصر ہوتے ہی وہ اس کے پاس آئ تھیں ۔ " طہ ۔ تم نے اپنی تیاری کر لی ۔ "  " نہیں ۔ " وہ مختصر کہہ کر صوفہ پر لیٹ گیا تھا ۔ " کیا مطلب نہیں ۔ تم نیں چل رہے ہمارے ساتھ ۔ " وہ اب  تھوڑا پریشان ہوئیں ۔ " نہیں ۔ " اس نے پھر مختصر کہا ۔ ": لیکن کیوں ۔ طہ "  وہ چڑ کر بولیں تھیں ۔ " بھائ نے خاص طور پر بلایا ہے ۔ اور تم ۔"  " امی آپکے بھائ نے آپ کو خاص طور پر بلایا ہے ۔ مجھے نہیں ۔ آپ جائیں ۔ " وہ پھر  سے وہی طہ بن گیا تھا ۔ ضدی اور اکھڑ سا ۔ " تو میرا بھائ تمہارا کچھ نہیں لگتا ۔ کیا کوئ رشتہ نہیں ہے تمہارا ان کے ساتھ ۔ " وہ اپنے غصہ کو ضبط کر نے لگیں تھیں ۔ " پتا نہیں ۔ اب آپ پلیز مجھ پر دباؤ مت ڈالیں ۔ویسے بھی میرے سر میں درد ہے ۔ " وہ جڑ بھی گیا تھا اور عاجز بھی ۔ " ط

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 48

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 48  وہ سب رات کا کھانا کھا کر بیٹھے تھے ۔اربیہ چاۓ بنا رہی تھی ۔ " امی ۔ اب گھر کا کام تقریباً مکمل ہو گیا ہے ۔ تو میں کہہ رہا تھا پہلی تاریخ کے آنے  تک ہم اپنا سامان شفٹ کرنا شروع کر دیں تو اچھا رہے گا ۔ " طہ نے ماں کو دیکھ کر کہا تھا  " اچھا ۔سچ میں گھر مکمل بن گیا ۔ " وہ حیران ہوئ  تھیں ۔بلکہ سب ہی حیران تھے کافی کم وقت میں گھر مکمل ہوا تھا ۔ ہاں ۔ اس لیۓ اچھا ہے شفٹنگ بھی دھیرے دھیرے شروع کر لیں تاکہ کام کا بوجھ بھی نا ہو ۔ " وہ اداس مسکراہٹ سے بو لا تھا ۔ " بہو ۔آ جاتی تو ۔سارا کام کر لیتی ۔میری  بوڑھی ہڈیوں میں دم نہیں ۔ " صابرہ بیگم نے کچھ اس طرح کہا کہ وہ مسکرایا ۔ " ہر چیز کی تان بہو پر آ کر ہی ٹوٹتی ہے ۔ ہم سب ہیں نا ۔ ہم ملکر کر لیں گے ۔ آپ بس نگرانی کریں ۔ "  " لیکن طہ ۔ وہاں پانی لائٹ وغیرہ کا انتظام ہوا بھی کہ نہیں ۔ "  نظیر صاحب کو یاد آیا ۔ " ابا ۔وہ تو سب سے پہلے کر وایا ہے ۔ آپ بے فکر رہیں ۔ بس کچھ باہر کی  فنشنگ ہے زیادہ کچھ کام نہیں اب ۔ پندرہ بیس دن میں سب ہو جائیگا ۔" اس نے کہتے

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 47

 وہ لوگ شام کی چاۓ کے لیۓ دالان میں بیٹھی تھیں ۔تبھی عابد آیا تھا ۔ " آپ کا تو گھر بن رہا ہے تہذیب باجی " وہ کسی کا م‌سے بازار گیا تھا اور اب آیا تو یہ خبر لیکر ۔ " کیا ۔ تجھے کیسے پتا چلا ۔ " شمیم آرا حیران ہو ئیں  تھیں ۔ حیرت کا جھٹکا تہذیب کو بھی لگا تھا ۔ ابوالکلام ابھی وہاں سے اٹھ کر گۓ تھے ۔ وہ دونوں ہی تھیں ۔ " طہ بھائ کے پلاٹ تک گیا تھا میں ۔ تو وہاں طہ بھائ کھڑے مزدوروں کو ہدایات دے رہے تھے ۔ " اس نے جوش و خروش سے بتایا ۔ " ہاں تو تم وہاں جاتےاور بات کر آتے طہ سے ۔ ایسے ہی کیوں آگۓ۔ " شمیم آرا کو غصہ آیا ۔ " نا با با ۔ طہ بھائ تو غصہ میں تھے ۔ میں وہاں جا کر اپنی شامت کیوں بلواتا ۔ چپکے سے کھسک آیا ۔ وہ کہتا اندر بڑھ گیا تھا ۔ " تم سے کچھ نہیں کہا تھا طہ نے گھر کے متعلق ۔ " اب وہ اسکی طرف پلٹی تھیں ۔ " امی ۔ میں یہاں ہوں تو مجھے کیسے پتا چلتا ۔ اگر وہاں ہوتی تو مجھے بھی علم ہوتا ۔ " وہ چڑ کر بولی تھی اور پھر وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئ تھی ۔ ماں  کو تو بہلا لیا تھا مگر  اب   موٹے موٹے آنسو خود  اسکی آنکھوں

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 46

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 46 اب ایک مہینہ کے قریب ہو گیا تھا اسے یہاں آۓ ۔ وہ اب ناشتہ کے لیۓ ٹیبل پر ابوالکلام اور شمیم آرا کے ساتھ۔  غائب دماغی سے بیٹھی تھی۔ اسے" اس" کے گھر کی چہل پہل یاد آنے لگتی تھی ۔  " کیا ہوا ۔تہذیب ۔ کھا نہیں رہی ہو ۔ ہاتھ کیوں روکا ہوا ہے تم نے ۔ " شمیم آرا کو اسکی خاموشی کھلی تھی ۔ " امی ۔اختری نے دال صحیح نہیں بنائ ۔ کھٹی کر دی ہے ۔ مجھ سے کھائ نہیں جا رہی۔ پھپھو دال بہت اچھی بناتی ہیں ۔  ۔ " اس نے روٹی کا نوالہ لیتے ہوۓ کہا تھا. " اف ۔تم اور تمہاری پھپھو کے قصیدے ۔ " شمیم آرا ہنسیں ۔  " بچپن سے اختری کے ہاتھ کا کھائ ہو ۔اور اب تمہیں اسکے ہاتھ کا کھانا  پسند نہیں آرہا ۔ "  " اگر پھپھو کی یاد آرہی ہے تو بات کر لو صابرہ سے ۔ کس۔ نے منع کیا ہے ۔ " اب ابوالکلام اسکی طرف متوجہ ہوۓ تھے ۔  " جی ۔ کر لوں گی ۔ " اس نے صاف منع نہیں کیا تھا ۔مگر دل ہی  دل میں وہ سب سے بد گمان بھی ہو گئ تھی ۔  کسی نے ایک بار بھی اس سے بات نہیں کی تھی  ۔ اتنے دن ہو گۓ تھے۔ اربیہ تو بات کر سکتی تھی وہ اسکی بھابھی بعد میں دو

میرے ہم نوا قسط 44

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 44 اس دن اس نے دوپہر کا کھانا ہی نہیں کھایا  تھا ۔تہذیب نے پھر پوچھنے کی حماقت نہیں کی ۔ شام تک پھپھو وغیرہ سب آگۓ تو وہ بھی اٹھ گیا تھا ۔ لیکن اس کا رویہ ہنوز ویسے ہی رہا ۔ محتشم کے بارے میں نا اس نے گھر میں کسی سے کہا نا تہذیب نے کچھ بتا یا ۔وہ دونوں ہی خاموش تھے ۔ یوں ایک ہفتہ گذر گیا اور اسکے رویے میں کوئ تبدیلی محسوس نہیں ہوئ ۔ اس رات وہ سارے کام ختم کر کےبیٹھی تھی جب اس نے اسے آواز دی تھی ۔ " تہذیب ۔۔ " اور اس کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ۔ وہ ایسی کسی پکار سے ڈر رہی تھی ۔ کہاں وہ اسے بللاتا نا تھا اور اپ اس کا بلانا ۔ وہ کیا کہے گا ۔کیا فیصلہ سناۓ گا ۔ یہ محبت کی پکار تو نہیں تھی وہ۔ خوش ہو تی ۔ اسکے دل میں کئ انجانے واہمے جڑ پکڑنے لگے ۔ اس نے صرف اسے دیکھا کہا کچھ نہیں ۔ وہ اس کی طرف ہی متوجہ تھا ۔‌اور اسے  اپنے پتھریلے تاثرات کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا ۔ " ہم دونوں کے لیۓ وقت آگیا ہے کہ اپنی اپنی زندگی کی راہ میں آگے بڑھیں ۔ جب نکاح ہوا تھا اس وقت حالات بالکل مختلف تھے ۔ اب ویسے حالات نہیں ہیں ۔ اب آپ زیادہ بہتر طریقہ سے فیصلہ کر سکتی ہیں ۔۔‌ وہ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 43

 میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 43 وہ اس وقت آنکن‌کے اس حصہ میں کھڑی تھی جہاں اس نے گلاب اور موتیے کے پودے پھپھو کی مدد سے لگاۓ تھے ۔ یہاں سرخ سفید گلابی اور زرد گلابوں کے پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے جبکہ موتیا موسم کے لحاظ سے اپنی پوری آب وتاب سے مہک رہا تھا ۔ موتیا تو کافی بڑا ہو گیا تھا اور اس پر بے شمار پھول کھلے تھے ۔ وہ مسکراتے انہیں توڑ رہی تھی ۔‌ اپنے ہلکے سبز رنگ کے دوپٹہ میں وہ موتیا بھر رہی تھی ۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کل طہ کے ساتھ  کی وجہہ سے تھی ۔ وہ آج گھر پر ہی تھا مگر کچھ کام سے قریبی مارٹ گیا ہوا تھا ۔ صابرہ بیگم بتول خالہ کے گھر گئیں تھیں جبکہ اربیہ اور اظہار اپنی روٹین لائف کے تحت اپنے کاموں میں تھے ۔ طہ جب باہر گیا تھا تو اس نے دروازہ نہیں لگایا تھا ۔اس کا خیال تھا وہ جلدی آئیگا ۔ اس لیۓ اس نے دروازہ بند کرنے کا تردد بھی نہیں کیا تھا ۔ یہ محلہ ایسا تھا یہاں اکثر دروازہ کھلے رکھتتے تھے اور جوری کا تو ڈر تھا نا خوف ۔ اوہ چونکی اس وقت جب اس نے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ محسوس کی ۔ وہ طہ سمجھ کر پلٹی تھی مگر سامنے موجود شخص کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ جم گئ تھی۔ ۔ وہاں محتشم کھڑے تھے ۔ا

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 42

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 42  اس کا خیال تھا وہ سیدھا گھر جا رہے ہیں لیکن جب طہ نے ایک آئیسکریم پارلر کے پاس بائیک روکی تو وہ چونکی ۔تھی۔ " یہاں کیوں ۔ " وہ سوچتے اتری تھی ۔ " اربیہ نے آئسکریم کے لیۓ کہا تھا ۔‌" وہ اب وضاحت دے رہا تھا ۔ " اچھا ۔ میں یہیں رکتی ہوں ۔آپ لے آییں ۔ "  اس نے بائیک کی سیٹ سے ٹیک لگا دیا تھا ۔۔ "  آئسکریم  کھانے کا موڈ ہے تو کھا کر  پیک بھی  کروالیں گے ۔ " اب وہ زیادہ کھل کر بو لا تھا تو وہ چپ چاپ اسکے پیچھے چل پڑی تھی ۔ یہ ایک چھوٹا لیکن بہت خوبصورتی سے سجا آئسکریم پارلر تھا ۔ جسکی دیواروں کو  مختلف رنگوں  سے سجا یا گیا تھا ۔اس کے  آرڈر دے کر آنے تک وہ پورے پارلر کا جائزہ لے چکی تھی ۔وہ اسکے سامنے آکر بیٹھا تب اس نے اپنی نگاہیں جھکا لی تھیں ۔ وہ کچھ دیر تک اسے یونہی دیکھتا رہا ۔جو اب حالت اضطراب میں اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا  ویٹر آرڈر لے کر  آگیا تھا ۔ اس نے ان دونوں کے سامنے آئسکریم رکھی تھی اور خود مسکراتے جلا گیا تھا ۔ " آپ شروع کر سکتی ہیں ۔ " وہ اپنے باؤل میں چمچ پھیرتے   بولا تو اس

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط چالیس

 میرے ہم نوا ۔۔۔قسط چالیس  وقت گذر رہا تھا ۔ ہر دن  ان دونں کے بیچ جہاں قلبی فاصلہ کم ہو رہا تھا وہاں ایک  گریز بھی پیدا ہو گیا تھا ۔وہ ایک دوسرے سے کتراۓ کتراۓ پھر نے لگے تھے ۔ اسے اسکی بولتی نظریں ہراساں کر نے لگی تھیں ۔ ایک جھجھک سی ہو گئ تھی ۔ایک دوسرے کے لیۓ ۔ جب تک طہ سو نہیں جاتا وہ  کمرے میں قدم بھی نا رکھتی یا  اسکے انے سے پہلے ہی لائٹ بند کر۔ دیتی اور  سونے کی کوشش کر نے لگتی ۔  ایک حجاب تھا جو ان دونوں کے بیچ حا ئل تھا ۔ آج وہ سب ہال میں بیٹھے تھے۔ صابرہ بیگم ترکاری لیۓ بیٹھی تھیں جبکہ طہ اپنا رائٹنگ  ورک کر رہا تھا ۔وہ اور  اربیہ ایک میگزین میں سر دیۓ بیٹھی تھیں ۔جب طہ کا فون بجا تھا ۔ اس نے فون اٹھا لیا تھا اور وہاں کی بات سننے کے بعد اس کے جہرے پر پریشانی کے تاثرات   چھا گۓ  تھے۔ جی ٹھیک ہے ۔ ہاں ۔میں  دیکھتا ہوں ۔آپ فکر مند نا ہوں ۔ وہ یہ کہکر فون رکھ چکا تھا ۔ صابرہ بیگم اسے ہی دیکھ رہی تھیں ۔ کس کا فون تھا ۔ "  " امی ۔ وہ رابعہ خالہ نے فون کیا تھا ۔ اکبر خالو کو برین اسٹروک ہو گیا ہے ۔وہ کومہ میں چلے  گۓ ہیں ۔ " اسکے بولنے پر صابرہ بیگم نے بے ساختہ دل بر

میرے ہم نوا ۔۔۔۔۔قسط 39

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 39  آج بتول خالہ کے گھر شادی تھی  صابرہ اظہار نظیر صاحب سب نے اپنے اپنے کام جلدی نبٹالیۓ تھے شادی میں جانے کے خیال سے۔ صابرہ بیگم نے اسے شادی میں چلنے کے لیۓ کہا تھا ۔ جبکہ دوسری رسموں میں وہ سب اکیلے ہی چلی گئ تھیں ۔ البتہ شادی میں تہذیب کو بھی لے جانے کا ارادہ تھا ۔وہ لوگ مغرب کے ساتھ ہی نکل گۓ تھے ۔اسے طہ کے ساتھ جانا تھا ۔ جو آفس سے ابھی آیا تھا ۔ اسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان سب کے لیۓ یہ  شادی اتنی اہم کیوں تھی ۔ اس  کا جانے کا بھی کو ئ ارادہ نہیں تھا ۔ پھپھو کے سامنے تو وہ کچھ بول بھی نا سکی تھی  اب سست سی بیٹھی تھی ۔  وہ کپڑے چینج کر کے آیا تو اسے یوں سست بیٹھے دیکھ کر رکا ۔  " کیا ہوا ۔آپ تیار نہیں ہو ئیں ابھی ۔ "  " جانا ضروری ہے " وہ بے زار سی ہو کر بولی تھی۔ " کیوں غریبوں کی شادیوں میں جانا ضروری نہیں ہو تا کیا ۔ " اس کا موڈ یکدم آف ہو ا تھا ۔ یہ ہر بات میں امیری غریبی کو بیچ میں کیوں لاتا ہے ۔  " نہیں ۔ ویسی بات نہیں ۔مگر قریبی رشتہ داری بھی نہیں ہے تو ۔۔۔" اس نے اپنا موقف واضح کرنا چا ہا تھا ۔ " بتول خالہ

میرے ہم نوا ۔۔۔قسط 38

میرے ہم نوا ۔۔۔۔قسط 38  وہ اٹھا تھا اور باہر آگیا تھا اس کا کام بھی تقریباً مکمل تھا ۔۔  " کیا ہوا ۔ " وہ اب اسکے قریب آگیا تھا ۔  " کچھ نہیں ۔ " اس نے کرتا چھپانا چاہا تھا ۔ مگر نا کام رہی تھی ۔ اس نے دیکھ لیا تھا اور اسکے ہاتھ سے لے لیا ۔اس کے کرتے کو غور سے دیکھا ۔ پھر اسے ۔ " سینا تھا ۔کیا ۔ "  تہذیب نے صرف اثبات میں سر ہلایا تھا اور اس  کرتے کی آستین بتائ تھی جہاں سے سلائ ادھڑ گئ تھی ۔ " دھاگہ بار بار ٹوٹ رہا ہے ۔ " اسکے ساتھ ہی بتا دیا ۔ " ہممم ۔ میں دیکھتا ہوں ۔ اس نے کرسی گھسیٹی تھی اور پھر اس کا کرتا لیا اور اسکے ہم رنگ دھاگہ مشین میں پرو یا تھا ۔ تہذیب اسکو بغور دیکھ رہی تھی ۔ اس نے کچھ ادھر ادھر مشین کے نٹ ٹھیک کیۓ تھے ۔ پھر مشین چلانی شروع کی تھی ۔ اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں اس کا کرتا تیار تھا ۔ اس نے وہ تہذیب کی سمت بڑھا یا تھا۔ تہذیب نے اپنے کرتے کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ کہیں بھی جھول نہیں تھا ۔ اتنی صاف سلوائ ۔ ؟ وہ حیران تھی ۔ " میرے ساتھ پتا نہیں اس مشین کو کیا دشمنی تھی ۔ جو بار بار دھاگہ ٹوٹ رہا تھا ۔ " وہ خفیف