اشاعتیں

جولائی, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔۔قسط 15

  رشتہ کے منظور ہوتے ہی دونوں خاندان کے لوگوں  کی ہر دوسرے دن ملاقات ہو رہی تھی ۔آخر یہی طۓ پایا کہ اگلے پندرہ دن میں منگنی رکھیں گے ۔ اور اس رشتہ پر سب سے پر جوش ابو جی ہی تھے ۔ ان کے اندر ایک گہرا سکون اترا تھا ۔ انشا  آج اپنے چھوٹے سے آنگن میں گملا لینے بیٹھی تھی ۔وہ ہر دن ایک ایک کمرے کی صفائ اور سجاوٹ پر دھیان دے رہی تھی ۔ آج آنگن اور اس میں لگے پودوں پر اس کی نظر کرم ہو گئ تھی ۔  ایک چھوٹے سے اسٹول لیے وہ اپنے سامنے ایک گملا لیکر اس کو کھود رہی تھی ۔ اسکے قریب ہی گلاب کی ٹہنی بھی رکھی تھی جس کو اسے گملے میں لگانا تھا ۔  " لوگوں میں کافی  تبدیلیاں آگئ ہیں ۔ لگتا ہے اچھے دن آنے والے ہیں ۔" اس مانوس آواز پر وہ یکدم پلٹی تھی ۔ وہ سفید شرٹ اور بلیک جینز پہنے دروازہ پر ہی کھڑا تھا ۔ عام دنوں کے مقابل کیپ بھی پہنی تھی ۔  " اف ۔ یہ ۔ " وہ دل ہی دل میں بڑ بڑائ۔ " کیا کروں ۔اب میں ۔ منگیتر کو گھر پر بلانا چاہیے کہ نہیں ۔یہ بھی نہیں پتا ۔ ویسے اسے آنا تو نہیں چاہیۓ تھا ۔ اب کیا کروں میں ۔جا کر امی کو اٹھاؤں جو رات ہی شاپنگ کر کے گھوڑے بیچ کر سوئ ہیں۔ ۔یا خود کہیں بھ

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔۔۔قسط 14

 وہ اپنی چاۓ گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی ۔ ابو کی آواز یہاں تک آ رہی تھی ۔ " کتابیں  ہماری زندگی میں بہت اہم رول پلے کرتی ہیں ۔بیٹے ۔ آپ جیسی کتابیں پڑھیں گے آپ کے خیالات بھی اسی کی مانند ہو نگے ۔ یونہی تو نہیں کہا گیا کتاب کو دوست ۔ دوست کو دیکھ کر بندہ کی صحبت کیسی ہے پتا لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم کیسی کتاب پڑھ رہے ہیں اسی سے ہماری فطرت ظاہر ہو جاتی ہے ۔" " جی انکل  بالکل ۔میرا بھی یہی ماننا ہے ۔ لیکن کتابیں صرف پڑھنے کے بجاۓ اس پر عمل بھی کرنا شروع کریں ۔اسکی نصیحتوں پر غور کریں ۔ اسکے اسرار و رموز جانیں تب ہی کتاب سے کچھ نفع حاصل ہوتا ہے ورنہ تو گدھے پر کتابیں لادنے والی بات صادق آتی ہے ۔ " شاید یہ اسی کی آواز تھی ۔ درست کہہ رہے ہو بیٹے ۔ تم سے بات کر تا ہوں تو دلی مسرت ہوتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت عرصہ بعدخودںسے مل رہا ہوں ۔ ابو کی آواز میں جو کھنک تھی اس نے انشا کو حیران کر دیا ۔ " میں خود کسی زمانے میں کچھ ایسی ہی سوچ رکھتا تھا بلکہ رکھتا ہوں ۔ ابو  خوشدلی سے کہہ رہے تھے ۔ جی ۔یہ تو انکل آپ کی نوازش ہی  ہے۔ میرے نزدیک زنگی عمل کا نام ہے ۔ صرف اچھی کتابیں پڑھنے

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔قسط 13

اس نے کچھ نہیں کہا ۔بس اپنی نگاہیں زمین پر مرکوز رکھیں تھیں ۔ " یہ شاید وہی محترم ہیں جو محبت  کے بڑے دعوے کر چکے ہیں ۔ " اس کے لہجہ میں ابھی بھی خفگی تھی ۔ اس نے پھر بھی کچھ نہیں کہا ۔ وہ اس وقت منتشر خیالات کی زد میں تھی ۔ " یہی مسئلہ ہوتا ہے ڈائجسٹ پڑھنے والی لڑکیوں کا ۔ وہ زندگی میں آنے والے ہر واقعہ ہر موڑ کو کوئ خوشگوار انجام والا افسانہ  سمجھنے لگتی ہیں ۔ اپنی زندگی میں وہی خواب بننے لگتی ہیں۔ جیسے کہ افسانہ و ناول میں ہوتا ہے ۔ ہر کردار میں اسی ہیرو کو ڈھونڈنے لگتی ہیں ۔ لیکن زندگی وہ افسانہ نہیں جس کا انجام آپ اپنی مرضی سے لکھ سکیں اور نا وہ ناول ہوتی ہے جس کے کردار وں کو آپ اپنی زندگی میں اپلائ کر نے لگتی ہیں ۔ اور محبت کے نام پر تو ،اکثر دھوکے کھاتی ہیں ۔اگر آپ اپنی زندگی کے ہیرو میں کچھ اچھا ڈھونڈنا چاہتی ہیں تو بدلہ میں وہ بھی آپ میں ویسی ہی خصوصیات ڈھونڈے گا ۔ آپ میں ہوتی ہے وہ صفت کہ جسے دیکھ کر  ایک ہیرو آپ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا سوچے ۔ آپ کے اندر وہ خوبی ہونی چاہیے تا کہ وہ آپ سے جھک کر عزت سے بات کر سکے ۔۔آپ کو عزت دینے والا مرد چاہیۓ تو آپ کو ا

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔ قسط 12

  وہ امی کے ساتھ ٹی وی لگا ۓ بیٹھی تھی ۔ یہ چار بجے کا وقت تھا ۔دھوپ بھی اب جانے کے مرحلے میں تھی ۔جب شہزاد آۓ۔  پھپھو شادی کے کارڈ لے آ یا ہوں ۔آپ کو شادی سے چار پانچ دن پہلے ہی آنا ہوگا ۔ وہ چہک رہے تھے ۔ لیکن بھابھی نہیں آئیں ۔ " امی کا چہرہ کچھ پھیکا پڑا تھا ۔ ا"می تو آنے کے لیۓ تیار ہی تھیں مگر آپ کو پتا تو ہے شادی کے گھر میں کتنی مصروفیات ہوتی ہیں ۔ بس اس وجہہ سے نا آ پا ئیں ."یہ کہتے انہوں نے انشا پر ایک نظر ڈالی ۔ "کافی سست بیٹھی ہو  ۔ کیا ہوا ۔ " "کچھ نہیں" ۔وہ انکے سرخ چہرہ پر چمکتی مسکراہٹ سے کچھ خایف ہو ئ تھی . ا"اچھا ۔ آپ کو بھی چار پانچ دن پہلے ہی آنا ہوگا ۔کوئ بہانا نہیں چلے گا ۔" انہوں نے دھونس سے کہا  ا"امی آئیں گی تو میں بھی آ جاؤں گی ۔" انشا ان کی توجہ پر مسکرا اٹھی ۔ "ہممم ۔اور یہ رہا آپ کا ناول" ۔ انہوں نے ایک گفٹ پیپر میں لپٹی کتاب اس کے نظروں کے سامنے کی ۔ ا"اوہ ۔کونسا ہے مجھے دیکھنا ہے" ۔ وہ بے صبری ہوئ ۔ ای شاید اندر چلی گئیں تھیں ۔ "تو لے لیں ۔میں نے کب منع کیا ہے "۔ انہوں نے

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔قسط گیارہ

 آج وہ اور امی چھت پر تھیں ۔وہیں پڑوس والی آنٹی  بھی چھت پر ہی ٹہری تھیں اور اب   وہ دونوں  زور و شور سے گفتگو میں مصروف ہو گئیں تھیں ۔بات ہو رہی تھی ایک اور آنٹی کی جنہوں نے ان چھت والی آنٹی کے گھر کے سامنے کچرا ڈال دیا تھا اور اب چھت والی آنٹی پر غیض و غضب چھا یا ہوا تھا ۔اور بات بات پر" تم بتاؤ ۔ایسے کوئ کرتا ہے کیا "۔پر ان کی بات ختم ہو رہی تھی ۔انشا ان دونوں کی باتوں  سے بور ہو گئ تو کچھ دور ہٹ گئ تھی اور اب آسمان پر نگاہیں جماۓ ہوۓ تھی ۔‌ ہممم ۔آسمان پر کیا ڈھونڈا جا رہا ہے ۔ " وہ شہزاد تھے جو اوپر ہی آ گۓ تھے ۔ " اوہ ۔آپ ۔ " پہلے تو انہیں دیکھ کر وہ چونکی ۔ " دن کا وقت ہے ۔ چاند تارے تو ڈھونڈنے سے رہی ۔ بس دیکھ رہی ہوں  آسمان‌کو ۔ " میں ابھی ابھی ایک ناول پڑھ کر آ رہا ہوں ۔ محبت کے موضوع پرتھا ۔" شہزاد چہکے ۔ ہر ناول محبت پر ہی ہوتا ہے ۔ویسے " انکی شاندار پرسنالٹی کے باوجود انکی اس بے تکی بات پر وہ بیزار ہوئ تھی ۔ "ہاں ۔محبت پر ہی ہوتا ہے تو آپ بتائے کس پر ہونا چاہیۓ ۔اگر محبت پر نا ہو تو ۔"  ا"سارے رائٹرز کو صرف محبت ہ

ڈائجسٹ ریڈر ۔۔قسط 10

  " امی ۔۔ابو کو میری قدر ودر بالکل نہیں ۔میں ان کے سامنے تھی ۔وہ مجھے پہاڑ سر کر نے کے لیے کہتے اور میں کر دیتی ۔وہ مجھے بولتے تو ۔ مگر نہیں جی ۔انہیں وہ "شریف" ہی نظر آتا ہے۔ اس نے یہ کیا ۔اس نے وہ کیا ۔ دوسرے دن وہ امی کے سامنے بیٹھی اپنی دل کی بھڑاس نکال رہی تھی ۔ " پہاڑ ۔۔۔وہ کونسے پہاڑ ہیں جو تم  سر  کر سکتی ہو ۔ بس ایک ڈایجسٹوں کا پہاڑ ہے جو تم پوری دل جمعی سے سروکرتی ہو ۔اس سے ہٹ کر تم نے کونسا کارنامہ سر انجام دیا  ۔کچھ بھی نہیں ۔ " امی اپنے ہاتھوں میں  قمیض لیے بیٹھی تھیں ۔ جس کے بٹن ٹو ٹ گئے تھے ۔ " ہاۓ ۔امی پہاڑ تو نا بو لیں میرے ان معصوم سے ڈائجسٹوں کو ۔ وہ ان کی بات پر ایسے دکھ سے بولی کہ امی اسے گھورنے پر مجبور ہو گئیں ۔ " معصوم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ تمہارے بچے ہوں ۔‌" امی کی اس بات پر اسے ایکدم کھانسی آئ ۔تبھی باہر دروازہ پر دستک سنائ دی ۔ بلکہ دینے والا نظر آگیا ۔ " انکل ہیں کیا ۔ "  " نہیں ۔جی ۔نماز کو گۓ ہیں ۔اور آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ہم نے تو کوئ آرڈر نہیں کیا ۔‌" وہ اسے یوں دروازہ پر کھڑا دیکھ کر کچ

ڈایجسٹ ریڈر ۔۔قسط 9

 وہ جب واپس جا رہا تھا تو انشا اسے دیکھ کر اپنی ہنسی روکنے میں مصروف تھی ۔چاۓ پی کر اس کا چہرہ لال بھبھوکا سا ہوا تھا ۔اور آنکھیں سرخی مائل ہوگئ تھیں ۔یقینا اسے یہ چاۓ زندگی بھر نا بھولنے والی تھی ۔لیکن انشا زندگی بھر کے لیے کونسا سبق یاد رکھنے والی تھی یا وہ ۔۔۔۔۔کونسا سبق اسے پڑھاۓ گا وہ ابھی سمجھ نہیں سکتی تھی  وہ آج ابو کے ساتھ ہاسپٹل آئ تھی ۔ ابو کو ہر مہینہ آنکھوں کے چیک اپ کے لیےآنا ہوتا تھا اور وہ ہر بار ان کے ساتھ ہوتی تھی ۔ ہاسپٹل پہنچ کر ابو اندر نمبر لکھانے چلے  گۓتھے چونکہ وہاں مریضوں کی لمبی قطاریں ہو تی تھیں اور نمبر کے لیۓ بھی کافی دقت ہو تی تھی ۔۔جبکہ  وہ باہر بیٹھ گئ تھی ۔ اسکے قریب ایک آٹھ سال کا بچہ بیٹھا ہوا تھا ۔جو کافی شریر نظر آ رہا تھا ۔اسے کچھ دیر تک دیکھنے کے بعد وہ سوال پر سوال کرنے لگا ۔ "باجی ۔آپ یہاں کیوں آئ ہو ۔ " " دواخانہ میں لوگ کیا کر نے آتے ہیں ۔ " اس نے الٹا اسی سے سوال کیا ۔ " ہممم " وہ کچھ دیر تک سوچتا رہا ۔  " میں تو بس گھومنے کے لیۓ آیا ہوں ۔ کیونکہ یہ ہاسپٹل کافی بڑا ہے ۔ " اس کی بات پر اسے ہنسی آگئ تھی