اشاعتیں

مارچ, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مدینہ کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

 اب ہمارا قافلہ مدینہ کی طرف رواں دواں تھا ۔ مکہ کے سات دن پلک جھپکتے گذر گۓ اور وہاں سے  رخصت لینے کا غم ساتھ تھا تو آقا کی روضہ کی زیارت کا شوق  نے اس غم کو کم کر دیا تھا ۔  ہاں میں اب مدینہ جا رہی ہوں ۔ اپنے آقا کے شہر ۔۔ وہ مدینہ جہاں میرے آقا نے اپنی عمر کے  بقیہ سال یہیں گذارے اور یہاں  چپہ چپہ میں حضور صلّی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ یادیں  ہیں جو کسی بھی عاشق رسول کے لیۓ کسی خزانہ سے کم نہیں ۔  مدینہ تیری معطر فضاؤں کو سلام  زبان پر درود شریف کا نذرانہ لیۓ ہم مدینہ شہر میں داخل ہوۓ ۔چونکہ رات ہو گئ تھی اس لیۓ دوسرے دن علی الصباح زیارت کرنے کا ارادہ کیا ۔صبچ تازہ دم غسل اور نۓ کپڑے پہن کر ہی روضہ پر  حاضری ہو ۔  دوسرے دن جب مسجد نبوی میں ہم نے قدم رکھا تو یوں لگا صدیوں کی پیاس آج بجھ گئ ۔‌ سبز گنبد کا نظارہ ایسا تھا کہ نظریں بس اس پر ہی ٹکی رہیں ۔ یہ گنبد خضرا ہے ۔‌وہی گنبد خذرا جسے ہم اکثر نعتوں کے ویڈیوز وغیرہ میں دیکھا کرتے تھے ۔‌جس کی زیارت کی تڑپ نجانے  کتنے برسوں کی تھی ۔‌ آج ہمارے سامنے تھا اور ہم لب بستہ اس گنبد کی خوبصورتی سے  مسحور ہیں ۔ الصلوات واسلام علیک  یا رسول االل

چاہ زم زم اور سعی

 سعی ،صفا و مروہ کے ان  سات چکروں  کو کہتے ہیں جو حضرت ہاجرہ علیہ السّلام‌نے   اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی پیاس کو دیکھ کر پانی کے لیۓ تڑپ کر لگائ تھیں اور حضرت ہاجرہ علیہ السّلام کی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آئ کہ قیامت تک کے لیۓ اس کو اپنے بندوں پر  واجب کر دیا ۔ کہ جب بھی کوئ عمرہ یا حج کو آۓ خواہ مرد ہو یا عورت ،وہ یہ سعی لازمی کرے ۔ اس کے بغیر اللہ کو آپ کا عمرہ یا حج قبول نہیں ہو گا ۔  ۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔اس واقعہ کے بارے میں آپ کو علم ہو گا کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السّلام  نے حضرت ہاجرہ علیہ السّلام کو اپنے شیر خوار بیٹے کے ساتھ یہاں مکہ میں اس سنسان ویران میدان میں لا چھوڑا تو یہ بالکل صحرا تھا ۔ دور دور تک کسی درخت پودے کا نام و نشان تک نا تھا ۔ اپنے اللہ کی رضا کی خاطر وہ اپنی زوجہ اور بیٹے کو اس میدان میں چھوڑ گۓ تھے ۔ یہ بات حضرت ہاجرہ کو علم تھا کہ یہ اللہ کی مرضی ہے ۔اس کا حکم ہے جسے ان کے خاوند نے پورا کیا ہے اس لیۓ زبان پر کسی بھی قسم کا شکوہ لاۓ بغیر انہوں نے اس میدان میں رہنا گوارہ کر لیا ۔ جہاں نا کوئ آدم تھا نا کوئ آدم ذاد ،نا کوئ چرند پرند ۔۔۔دور دور تک صرف میدان پ

کعبہ پر پڑی جب پہلی نظر

 کعبہ پر پڑی جب پہلی نظر  کیا چیز ہے دنیا بھول گیا  کچھ ایسی ہی کیفیات تھیں اس وقت جب میری پہلی نظر کعبہ پر پڑی تھی ۔ جب مکہ کے مقدس شہر میں ہم نے قدم رکھا تو ہم حالت احرام میں تھے ۔ عشا کا وقت تھا ۔ جب ہم سوۓ کعبہ چلے تھے ۔ زبان پر لبیک اللہم لبیک کی صدائیں تھیں اور نظریں جھکی ہوئ تھیں ۔ اور اس وقت تک جھکی  رہیں جب تک معلم صاحب نے نظریں اٹھانے کا نا کہا ۔ کہ انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ براہ راست کعبہ پر نظر نا ڈالیں بلکہ بہت دھیرے دھیرے نظر اٹھائیں اور جب کعبہ آپ کی مکمل نظروں میں ہو تب دعا مانگ لیں ۔  ۔۔۔۔‌اور ہم سب نے ان کے کہنے کے مطابق جب کعبہ پر پہلی نظر ڈالی تو ہم سب گروپ ممبرز رونے لگے تھے سب کی آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے ۔ جانے کیا کیا یاد آ گیا اور کیا کچھ بھول گۓ۔ میرے لیۓ بھی یہ الگ ہی کیفیت تھی ۔ روتے روتے دعا مانگی تھی ۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ واقعی میں میں یہاں پہنچی ہوں اور کیا یہ میں ہی ہوں جو کعبہ کے سامنے بیٹھی ہوں ۔‌کعبہ کا گہرا سبز غلاف اتنا خوبصورت لگتا ہے کہ نظر ہی نہیں ٹھہرتی ۔ ایک الگ ہی رعب سا محسوس ہوتا ہے ۔ آنکھ بار بار جھک جاتی ہے احترام میں ۔ یوں نظر بھر کر دی