اشاعتیں

جولائی, 2019 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہاے۶ یہ کیوٹ بزرگ قسط دو

ہاۓ یہ کیوٹ بزرگ  ہم نے کہا تھا کہ بزرگ جو ہوتے ہیں وہ موقعہ محل بھی نہیں دیکھتے،اور نا مزاج ،طبیعت وغیرہ ۔بس کچھ یاد آجاۓ تو اسی پر ڈٹ جائیں گے ۔یہ ہماری امی ساس بھی ایسی ہی ہیں ۔انکی اکلوتی بھتیجی کی بیٹی کی شادی تھی جبکہ سگا بھانجاانکی بھتیجی کے شوہر تھے مطلب ڈبل رشتہ داری ،یہ لوگ کافی دولت مند ہیں۔اور بیٹی کی شادی میں کوئ کسر ‌‌‌‌نہیں  چھوڑ   رہے تھے۔چونکہ ایک طرف بھتیجی تو دوسری طرف بھانجا اس لیۓ انہیں اسپیشل پروٹو کول دے کر بلایا گیا تھا ۔ویسے یہ دونوں میاں بیوی ہماری ساس کو چاہتے بھی بہت تھے۔اور عزت بھی بہت دیتے تھے۔اس لیۓ انہیں آٹھ دن پہلے ہی بلا لیا تھا ۔مہندی کا فنکشن بہت رات تک چلا ۔دوسرے دن دوپہر میں جب کھانا وغیرہ کھا کر سب اپنی تھکن اتار رہے تھے ۔انہیں اچانک کچھ یاد آیا تو یہ اپنے بھانجے کے پاس چلی گئیں۔ منعیم منعیم ،!،وہ تھکے ہارے گہری نیند میں تھے اور یہ انہیں جگانے لگیں۔ "جی ۔جی خالہ  کیا ہوا "وہ پریشان کہ پتا نہیں خالہ کو کیا ضرورت پیش آئ۔ "تم نے بیٹی کو جہیز میں تانبے کے دیگچے دیۓ کہ نہیں ۔" "ہائیں" انکی نیند بھک سے اڑ گئ۔جیسے

غزل

روے۶ گل شرم سے یوں لال ہوا جاتا ہے   رخ ماہ جبین حیا سے لال ہوا جاتا ہے   ترک تعلق کی جو اگر بات آپ نے کی   چہرہ ہمارا غصہ سے لال ہوا جاتا ہے  غم زیست کا حاصل ہو تو کیا ہو  آنکھ سے گر کر قطرہ لال ہوا جاتا ہے  سفر ماضی کی کیا روداد کہیں  آنکھوں سے بیاں حال ہوا جاتا ہے  کٹھن سفر ہوتو ہو مگر ہو ختم بھی  آس امید ہے پر دل بے حال ہوا جاتا ہے 

میں سورج ہوں

میں سورج ہوں  رات کے شاید آٹھ بجے ہونگے تبھی کھڑکی پر دستک ہو ٸ ۔ہم حیران کہ کھڑکی پر دستک کون دیتا ہے”  ۔کون “ہم نے پوچھا ۔ ”میں سورج ہوں “ جواب آیا ۔ ”تو ،ہم کیا کریں “ ہم نے چڑ کر کہا ۔ ”اور  ویسے بھی یہ کوٸ وقت ہے آنے کا ،صبح آجانا “ہم نے سورج کے ساتھ فقیروں سے بھی زیادہ بد تر سلوک کرتے ہوۓ کہا ۔لو پہلے ہی گرمی سے دماغ خراب ہو رہا ہے اور یہ جناب ہیں کہ ”میں سورج ہوں “کی گردان لگاۓبیٹھے ہیں ۔سورج ہو تو سورج ہی رہو ناں چاند بنکر راتوں میں کیوں آۓہو ۔ ہم دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتے ہوۓ سوچ رہے تھے ۔ ”صبح تو میں بغیر اجازت کے بھی آجاتا ہوں ۔مجھے تم سے بات کرنی تھی “۔سورج لجاجت سے یوں بولا کہ ہمارا دل گرمیوں کے مکھن کی طرح پگھل گیاکہہ تو صحیح رہا تھا صبح اس نے کون سا ہماری اجازت لیکر طلوع ہو نا تھا صبح ہوتے ہی بے شرموں کی طرح آجا نا ہے ۔ ہم نے کھڑکی کھول دی تو سورج صاحب بڑے کروفر سے صوفہ پر جا کر بیٹھے پیلا پیلا دوشالہ اوڑھے ۔ ”او یہاں اسٹول پر بیٹھو ،دن میں آپکی من مانی چل سکتی ہے رات میں نہیں “ہم نے سوچا سورج کو اسکی اوقات یاد دلا دیتے ہیں ویسے بھی وہ دن میں ہمیں ہماری اوقا

ہاۓ یہ کیوٹ بزرگ

ہاۓ یہ کیوٹ سے بزرگ  کہتے ہیں کہ بڑھاپا بچپن ہی کا ایک روپ ہو تا ہے ۔اور بڑھاپے میں بچپن کے پیارے رنگ نظر آتے ہیں ۔جس طرح بچے کیوٹ ،معصوم ہو تے ہیں اسی طرح بزرگ بھی معصوم سے ،کیوٹ سے ہو تے ہیں ۔اب ہم آپ کو اپنی ساس کا یہی معصوم سا انداز بتانا چاہتے ہیں ۔ہماری ساس روایتی ساسوں کی طرح بلکل بھی نہیں ہیں ۔بلکہ ماں جیسی کہوں تو غلط نہیں ہو گا ۔یہ کیوٹ لفظ ہماری بیٹی نے دیا ۔عید کے دن کی بات ہے۔وہ نہاٸیں دھوٸیں اور چوٹی کے لیے ہمارا انتظار کرنے لگیں ۔ہم چونکہ مصروف تھے اس لیے بیٹی کو کہا کہ انکے  بال بنادو ،میں بعد میں چوٹی ڈال دونگی ۔ہم یہ کہکر اپنے کام میں مصروف ہو گۓ ۔تھوڑی دیر کے بعد دیکھا ۔ہماری ساس اپنے بالوں سے بے نیاز کھانے میں مصروف تھیں ۔ہماری جدید فیشن کی دلدادہ بیٹی نے انہیں جدید انداز میں ہاٸ پونی ڈال دی تھی۔(شکر تھا لٹ ںہیں چھوڑی تھی ۔) انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ انکی پوتی نے انکے بالوں کا کیا حشر کیا ہے ۔”یہ کیا کر دیا “ہم اپنی ہنسی دبا تے ہوۓ بولے ۔ ”مما ۔دادی کتنی کیوٹ لگ رہی ہیں ناں “ وہ بولی تو ہم بھی اثبات میں سر ہلانے لگے ۔ اس طرح وہ کیوٹ کہلاٸیں۔جس طرح بچے دل کےسچے

اسکیلیٹر برقی زینے

 کچھ لفظ کافی مشکل ہو تے ہیں ۔اب اس لفظ کو ہی لیں ،اسکیلیٹر ،ہے ناں مشکل ،ہم تو ہججے ہی کررہے ہیں ویسے ،زبان ہے کہ بار بار اکسیلیٹر کہے جارہی ہے ۔( کار کا بھوت ابھی اترا نہیں  شاید اس لیۓ)۔  اسکیلیٹر یعنی رواں زینہ ،مطلب چلتی ہو ٸ سیڑھیاں ،چلتی ہوٸ ،اب کیا سیڑھیاں بھی چلنے لگیں ،اب یہی باقی رہ گیا تھا ،پہلے زمانے میں سیڑھی چڑھنے کے کام آتی تھی ۔اور اب اس ااسکیلیٹر کو دیکھ کر تو لگ رہا ہے کہ اب سیڑھیاں گرانے کا کام بھی کرنے لگیں ۔یہ بجلی سے جو چلتی ہیں تو نۓآدمی کو اس پر چڑھنا پہاڑ پر چڑھنا برابر ہی لگتا ہے ۔حالانکہ پہاڑ پر چڑھنے سے آدمی کو دم آتا ہے اور اس چلتے زینہ پر چڑھنے سے آدمی کا دم جاتا ہے ۔اس چلتے زینہ کو آدمی کی سہو لت کے لیۓ ہی بنایا گیا ہے ورنہ بندے ہانپتے کانپتے سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہتے ۔فلک بوس عمارتیں بناٸ گٸیں تو اسکیلیٹر بھی بنادٸے تاکہ لوگوں کو چڑھنے اترنے سہولت ہو ۔لیکن ...... لوگ اور ہمارے جیسے لوگ ہوں تو چلتے یا رواں زینے گلے کی ہڈی بن جاتے ہیں ۔نا چڑھتے بنے نا اترتے بنے ۔بس سامنے جا یٸں گے اور ایک قدم آگے تو دس قدم پھر پیچھے ۔مطلب کہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ قدم رکھ

آنسو

آنسو  ”آنسو “ کا تعلق آنکھوں سے ہوتا ہے۔آنکھوں کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔دل جس میں خوشی و غم موجزن ہو تے ہیں ۔اس لیے تعلق بھی گہرا ہوتا ہے ۔بغیر دل میں محسوس کیے آنکھوں سے آنسو کیسے ٹپک سکتے ہیں ۔دل میں درد کی گہری ٹیس آنکھ میں آنسو بن جاتی ہے۔دل جو سمندر کی طرح گہرا ہو وہاں آنسو قطرہ نہیں ،جو آنکھ سے گرے ،گہر بن جاتا ہے ۔ آنسو عام طور پر غم و حزن کے عالم میں آنکھو ں سے گرتے ہیں ۔مسرت کی انتہا پر جو گرتے ہیں وہ خوشی کے آنسو ہو تے ہیں ۔یہ خوشی کے آنسو مسکراہٹ کے ساتھ آتے ہیں ۔کیف و خو شی کے عالم میں انسان مسکراتا بھی ہے اور آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو تے ہیں ۔ایسے میں جذبات کا اظہار آنکھوں سے ہی ہوتا ہے ۔چونکہ زبان گنگ ہو جاتی ہے ۔ آنسو بہانے میں خواتین کافی بد نام ہیں ۔بات بات پر آنسو بہانا ،خواتین کی عادت ہو تی ہے ۔کہتے ہیں عورت جب روتی ہے تو مرد کا دل اسکے آنسوٶں کے ساتھ بہنے لگتا ہے ۔خواتین ان آنسو ٶ ں کا استعمال اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں کرتی ہیں اور کامیاب بھی ہو تی ہیں ۔عورت کے آنسوٶں سے مرد کا دل پسیج جاتا ہے ۔ کچھ آنسوٶں کو مگر مچھ کے آنسو بھی کہتے ہیں ۔جو آنسو جھوٹے ہوں

زبان دراز

”مرزا صاحب !“بیگم کی پکار پر مرزا ہڑبڑا کر اٹھے ۔ ”جی“ ”یہ دودھ انڈے ،دہی اور گوشت وغیرہ لانے ہیں آپکو ،لے آیۓ“۔بیگم صاحبہ نے انہیں لسٹ تھماٸ۔ ”دعوت کر رہی ہوں ،اپنے بھاٸ کی،خیر سے اس نے انجینیرنگ پاس کر لی ہے ۔“ ”کتنے سالوں میں ؟“مرزا صاحب کا پوچھنا غضب ہوا ۔ ”کتنے بھی سالوں میں کیا ہو مگر انجینیر تو بن گیا ناں وہ “بیگم نے انہیں گھو ر کر دیکھا تو وہ بھی خاموشی کو غنیمت سمجھتے ہوۓ اٹھے اور اپنے حلیہ پر نظر ڈالی ۔سفید بنیان پر دھاری دار پاجامہ پہنے وہ ایک گزیٹڈ افسر تو نظر نہیں آرہے تھے ۔آفس میں ہوتے تو ہر کو ٸ کرسی سے اٹھ کر سلام کرتا تھا ۔اور گھر میں یہ حالت تھی کہ انکے کچھ بولنے کی دیر ہوتی تھی اور انکے پاٶں کے نیچے سے زمین کھینچ دی جاتی تھی ۔کہاں کہ آفس میں وہ زور سے آواز دے کر چاۓمنگاتے ،اور کہاں یہ گھر کا عالم کہ وہ” چوں “   بھی نا کر پاتے ۔آہ اور اف تو آگے کی بات ہوتی سارے گھر میں بیگم صاحبہ کے راٸج کردہ سکے چلتے تھے ۔ملک میں جس کی بھی حکومت ہو ،گھر میں ہر دم بیگم حکومت ہی چلتی تھی ۔بغاوت کے آثار دور دور تک بھی نا تھے ۔مرزا صاحب کے پاس زبان ہی نہیں تھی ۔وہ صداۓاحتجاج کس س

ہم اور شاعری

ہم اور شاعری  یوں تو شاعری سے ہمارا دور کا ،قریب کا ،کہیں کا بھی واسطہ نہیں ہے لیکن ہمارے ایک کرم فرما نے فرمایا کہ آپکا نام بڑا شاعرانہ ہے ۔آپ شاعری کیوں نہیں کرتیں ۔بس انکا فرمانا اور ہمارا شاعری کے میدان میں کودنا لوگوں کے لیے سزا بن گیا۔ شاعری کے لیے کیا چاہیۓ ہوتا ہے ۔ہم نے یوں پوچھا جیسے بریانی کی ترکیب پوچھ رہے ہوں۔ ”سب سے پہلے ایک عدد تخلص “ انکا جواب بھی ویسے ہی تھا جیسے کہ رہے ہوں ،”ایک عدد لیموں “  ”آپ ہی تجویز کریں “ہم نے بڑے بڑے کہنہ مشق شعرأ کو مات دیتے ہوۓ اس طرح کہا جیسے شاعری تو بس ابلی پڑ رہی ہے ،بس ایک تخلص کی دیر ہے ۔ ”پھول،خوشبو ،تتلی ،کیسے ہیں “۔ ”یہ تخلص ہیں کہ پروین شاکر کی شاعری ؟“ ہمیں نام پسند نا آۓ۔  ”ٹھیک ہے  پھر دروازہ ،کھڑکی ،کنڈی  رکھ لو “جل کر کہا گیا۔ ” ہم انجینیر کی اولاد تھوڑی ہیں کہ اس طرح کے تخلص رکھیں ۔“ ہمارا بھی منہ بن گیا۔وہ خاموش ہوۓ۔ اور ہم شاعروں کے تخلص پر غور و خوض کرنے لگے ۔غالب ،میر ،اقبال تک تو ٹھیک ہی تھے مگر داغ ،یہ بھی کو ٸ تخلص ہوا بھلا ،کیا پتا انکی زوجہ کپڑے صحیح نا دھو تی ہوں تو انہوں نے جل کر اپنا تخلص ہی داغ ر

شعلے ان جوکیلے

جوکیلے میں شعلے فلم نے مچاٸ آفت، اور ہم بنے تھے گاٶں والے،  ہیکر  گبر سنگھ کا روپ دھارے ہو ۓ تھا۔ ”۔یہ جوکیلے مجھے دے دو ٹھاکر“ پکار رہا تھا۔جبکہ سر طاہر ٹھاکر بنے بیٹھے تھے۔فتورا کالیا بنی تھی۔ زمر ”ہم انگریزوں کے زمانے کے جیلر “بنی پھر رہی تھی ۔ساتھ ساتھ بندوق لیے چلا کر کہ رہی تھی ۔خبردار ،اگر کسی نے جوکیلے کے معیار کو گرایا تو، ایک ایک کو شوٹ کر دوں گی۔زوہا بسنتی بنی ”چل دھنو ،آج جوکیلے کی عزت کا سوال ہے“ ۔چیخ رہی تھی جبکہ ہیکر گبر والے انداز میں ہنستا چلا جارہا تھا۔ ویرو بننے کے لیےہر کوٸ  ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا  تھا ،جبکہ ”اتنا سناٹا کیوں ہے بھاٸ کہتے علی آبی  لکڑی ٹیکتے ہی رہ گۓ تھے ۔ جبکہ ہم سب اسکو فلم کی شوٹنگ سمجھ کر اسکا لطف اٹھارہے تھے ۔اس طرح پکے گاٶں کے گنوار لگ رہے تھے ۔اس وقت جبکہ فتورا مشین گن لیۓتن تنہا ہیکر سے لڑ رہی تھی ،اسی وقت ویرو خامو شی سے نکل جاتا ہے ۔ کالیا یعنی اپنی فتورا گبر سے کہتی ہے ”نکلو یہاں سے ورنہ باہر پھینکوں گی ۔غدار کہیں کے ۔“ فرحت بسنتی کی ماسی بنی پھر رہی  ہے۔اور کہ رہی ہے کہ اس بسنتی سے پیچھا چھڑاٶ ۔ورنہ میں پانی کی ٹانکی سے کو د کر خ

ٹایم ٹراویل 220

ایک نہایت خوبصورت،سا شخص جس نے  ہو بہو فواد خان جیسالک اپنا یا تھا ۔اپنی ڈیپی بدل رہا تھا کہ  آپ پھر فیس بک پر جا کر بیٹھ گۓ۔ہمیں پتا نہیں تھا ورنہ ہم بادشاہ سلامت کو کہ دیتے کہ یہ موا لیپ ٹاپ نا دیں ۔ہاۓمرزا غالب غالب نا رہے ۔آپ کو کہا بھی تھا مہینہ کا راشن ختم ہو گیا ہے۔ہم نے لسٹ بنا دی ہے جايۓاور کسی بھی سوپر مال سے لے آیں۔مرزا غالب کی اہلیہ محترمہ نے اپنے تازہ تازہ بیوٹی پارلر سے کٹواۓبالوں ایک ادا سے جھٹک کر کہا۔ جی !جانو جی ،ارادہ باندھا تو تھا جانے کامگر فیس بک نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے غالب کے اس انداز پر اہلیہ محترمہ جل کر رہ گٸں۔ ہم آپ کو گروسری لانے کے لیے کہ رہے ہیں اور آپ ہمیں موۓشعر سنا رہے ہیں۔اس شاعری نے  آپ کو کہیں کا نا رکھا ،اب اس زمانے میں بھی یہ شاعری ،کر  رہے ہیں ۔ہم آپ سے کہ رہے ہیں کہ  شاعری چھوڑیۓاور کچھ بزنس دغیرہ کریں۔آگرہ کا پیٹھا بہت مشہور ہے کیوں نا آپ اسکا کاروبار کر لیتے۔ لاحول ولا قوة، ”یہاں فیس بک پر ہماری شاعری کی دھوم مچی ہے اور تم ہمیں پیٹھے کی دوکان لگانے کے لیے کہ رہی ہو۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی انکے اس اندز پر

نوک جھونک

نوک جھونک کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے رشتہ میں نوک جھونک نا ہو تو رشتہ میں مٹھاس نہیں رہتی۔سچ ہی کہتے ہیں لوگ ویسے ۔اب ہمیں ہی لے لیں ۔ہمارے شوہر کو عادت ہی نہیں کہ وہ ہماری تعریف ہی کریں۔یوں تو سارے ہی شوہروں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ تعریف کرنے میں حد سے زیادہ بخیل پنے کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔حالانکہ دیکھا جاۓتو جاۓ تو بیوی کی صرف ایک بار تعریف کرنے سے شوہر کا ایک ہفتہ آرام سے کٹ جاتا ہے ۔مگر افسوس بیوی کی تعریف نا کر کہ شوہر اپنے ہفتوں کو یونہی برباد کرتے رہتے ہیں۔ اب ہماری ہی مثال لیں ،اس دن پڑوس میں دوپہر کی دعوت تھی۔ہم نے بھی سبز کڑھا ٸ والا کرتا ،سبز چوڑیاں ،سبز موتیوں کا گلے کا سٹ،میچنگ ہیر بینڈ لگاۓ،سبز دوپٹہ لہراتے ادھر ادھر آجارہے تھے۔ یہ طوطا پری کیوں بنی پھر رہی ہو ۔اخبار پڑھتے پڑھتے ہی سوال آیا۔ ٹھیک ہے آموں کا سیزن ہے ۔اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ساری آموں کی مثالیں مجھے ہی دے دیں۔ہم انکی طوطا پری والی مثال پر تپ کر رہ گۓ۔ ڈیابیٹک ہوں ،اس لیۓ آموں کے نام لےلے کر ہی خوش ہوتا ہوں۔ٹھنڈی سی سانس بھر کر کہا گیا۔ ہم ہونہہ کہ کر رہ گۓ۔ بہت بری عادت ہے ویسے آپکی ،کبھی جو