اشاعتیں

دسمبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

خود کی تلاش میں

 خود کی تلاش میں ۔۔۔۔۔کبھی کبھی آپ کو کچھ عجیب کرنے کو چاہتا ہے ۔کچھ ایسا کہ آپ خود حیران ہو جائیں ۔ ہمارا دل بھی عجیب ہی ہے ۔جب جو کرنا چاہیۓ وہ نیہں کرتا اور جو نہیں کرنا چاہیۓ وہ کر گذرتا ہے ۔اب اسے کیا پڑی تھی کہ وہ ہمیں تلاش کرنے نکل پڑتا ۔مگر نہیں وہ ہمارا دل تھا سو حضرت نکل پڑے  ۔جانے کن کن جنگلوں کی خاک چھانی ۔اور کونسے کونسے دریا  عبور کیۓ۔ مگر اسے کچھ خاک نا ملا ۔ساری دنیا چھان ماری ۔مگر ہاے ری قسمت اسے ہم ملے ہی نہیں ۔ ہم اسے کہاں ملتے کہ ہم تو اپنے آپ کو کھوج رہے تھے ۔ہمیں خود کی ہی تلاش تھی ۔ جب ہم اپنی خودی کو تلاش کر رہے تھے تو دل نے کہا  محترمہ ۔آپ دنیا کی رنگینیوں میں کھو گئیں ہیں تو آپ خود کو کیسے ملیں گی۔ پہلے اپنے دل کو دنیا سے پاک کردیں تو آپ کو اپنا آپ نظر آئیگا ۔آپ کی خودی  دنیا کے لہو و لعب میں گھل مل گئ ہے ۔آپ کی نظر آپ کا دل سب ہی اس دنیا کی بے ثباتی میں کھو گۓ ہیں ۔ اس لیۓ خود کو تلاش کرنے سے پہلے اپنے دل کو صاف شفاف آئینہ بنالیں آپ کو آپ خود ہی مل جائیں گی۔  یہ کہتا  ہمارا۔ دل ۔۔۔۔ہم سے راز خودی عیاں کرتا چلا گیا ۔ ہمارے دل نے سچ کہا کہ جھوٹ ۔آپ بتائیں۔  ختم

تیسرا پہر ۔۔۔۔۔۔

 تیسرا پہر ۔۔۔۔ اسکی اچانک آنکھ کھلی تھی اس نے وقت دیکھا تو تین  بج رہے تھے ۔ وہ اکثر عشاء پڑھے بغیر سو جاتی تھی ۔ ۔ یہ اسکی بہت بری عادت تھی ۔اور آج اس وقت آنکھ کھلی تو وہ باہر آگئ ۔آنگن میں بچھے تخت پر بیٹھی اور اسکی بے ساختہ نظر آسمان پر اٹھی ۔ واہ کتنا خوبصورت آسمان تھا۔ سیاہ رات کا فسوں چہار سو بکھرا تھا ۔سیاہ آسمان پر چمکتا چاند اتنا خوبصورت نظر آتا ہے یہ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ ٹمٹماتے تارے جیسے بادلوں کے ساتھ شرارت کررہے تھے۔تیسرے پہر کی رات اس سے جیسے ہمکلام تھی ۔رات خاموشی سے گفتگو کر رہی تھی ۔ اسے یاد آیا کہ اس نے عشاء نہیں پڑھی تھی ۔وضو کیا اور نماز کے لیۓ ٹہر گئ ۔ نماز ختم ہونے کے بعد وہ ایک سجدہ اللہ کے حضور ضرور کرتی تھی ۔ سجدہ میں گئ تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اپنے رب سے ہمکلام ہے ۔یا رب اس سے ہم کلام ہے ۔  ایسا لگ رہا تھا جیسے اللہ کہہ رہا ہو ۔مانگ اے بندی ۔مانگ ۔کہ یہی وقت ہے مانگنے کا ۔اور اسی وقت میں اپنے بندوں سے سب سے زیادہ قریب ہو تا ہوں ۔ کیا چاہیۓ تجھے ۔کہ میں نے  آج سارے خزانے تیرے جیسے بندوں کے لیۓ کھلے رکھے ہیں ۔ مانگ لے آج اپنی مرادیں ۔ اور اسے اس پہر ک

سونی عمارت۔۔۔۔ایک مزاحیہ تحریر

 سونی عمارت ۔۔۔۔ایک مزاحیہ تحریر یہ اتفاق ہی تھا کہ بھٹکتے بھٹکتے ہم  اس سونی عمارت میں داخل ہو گۓ ۔اب ہم ہیں اور وہ سونی عمارت ۔۔۔۔ ہم سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہے تھے اور اس سونی عمارت میں ہماری ہوائ چپلوں کی آوازیں عجب شور کر رہی تھیں ۔پہلے پہل تو ہم خود اپنی چپلوں کی بے ڈھنگی آوازوں سے ڈر گۓ ۔  اف ۔۔۔۔۔۔ہم ڈر کر رک گۓ ۔جب اندازہ ہوا کہ یہ ہماری ہی مطلب ہماری چپلوں کی پیدا کردہ آوازیں ہیں تو پھر سکون کی سانس لی ۔لیکن ہمارا سکون اسوقت غارت ہوا جب سررر کی آواز کے ساتھ سونی عمارت ہی ہم سے مخاطب ہو ئ ۔ سنو اے سنو ۔۔۔  ہاییں ۔یہ کیا ۔ہم نے اس بلند مینار کو دیکھا جو ہمیں جھک کر دیکھ رہا تھا ۔  یہ تمہاری چال کو کیا ہوا ۔ساری عمارت تمہاری بے ہنگم چال سے پریشان ہو گئ ہے ۔  تم ذرا ڈھنگ سے قدم نہیں رکھ سکتیں ۔  یہ لو ۔ہم نے ماتھے پر تاسف سے ہاتھ مارا ۔ تم اب ہماری چال چلن پر شک کروگے ۔ ہونہہ اپنی شکل تو دیکھ لو ۔بوڑھے مینار  ۔ ہم نے اسے گھورا ۔ خبردار ہمارا شمار آثار قدیمہ میں ہوتا ہے ۔ ایک لفظ بھی مت کہنا ہمارے خلاف ۔  ٹھیک ہے نہیں کہتے لیکن تمہاری حالت اور یہ تنہائ تو کچھ اور ہی کہانی سنارہی ہ

نازک سا پھول

 نازک سا پھول  ایک بیٹی والدین کے باغ کا  نازک سا پھول ہی تو ہوتی ہے ۔جسکی والدین اپنی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں ۔اسکو زمانہ کی سرد گرم ہواؤوں سے محفوظ رکھنے کے لیۓ جاں توڑ کوشش کرتے ہیں ۔والدین کبھی نہیں چاہتے کہ انکے نازک پھول کو کوئ نقصان پہنچے ۔وہ پھول کی حفاظت کرنے کے لیۓ خود کانٹے کی طرح سخت بن جاتے ہیں ۔ اس پھول کو کیا پتا کہ یہ کانٹے کس طرح اسکی حفاظت کرتے ہیں ۔ کیسے اسے محفوظ رکھنے کے لیۓ تگ ودو کرتے ہیں ۔ اسکی تازگی برقرار رکھنے کے لیۓ خود مرجھا جاتے ہیں ۔ اس کے رنگ محفوظ رکھنے کے لیۓ خود بے رنگ ہو جاتے ہیں۔ اسکی نزاکت کی حفاظت کے لیۓ خود پتھر بن جاتے ہیں ۔ انکی سختی آج کی دوشیزہ  کو گراں گزرتی ہے ۔انکی پابندی اسے اپنی پرائیوسی میں خلل لگتی ہے۔  انکی روک ٹوک کو قید سمجھنے لگتی ہے۔ ۔ وہ ہواؤں میں خوشبو بن کر بکھرنا چاہتی ہے ۔ لیکن اس دوشیزہ کو پتا نہیں کہ خوشبو  پھول ہی  میں  ہو تو محفوظ رہتی ہے۔ ہوامیں بکھری خوشبو اپنی شناخت کھو دیتی ہے ۔ اس لیۓ اے نازک پھول سی لڑکی ۔۔۔۔اپنا آپ یوں عیاں نا کر ۔ ایک سربستہ راز بن جا۔جسے ہر کوئ کھوجنا چاہے مگر کھوج نا سکے ۔  ایسا ہیرا بن جا ج

سفر کا سامان ۔۔۔۔طنز و مزاح

 "شبو اے شبو "۔اماں کی پکار پر شبو سوتے سے اٹھ بیٹھی۔  "دیکھ! تیری خالہ کی مزاج پرسی کو گاؤں جانا ہے ۔ ۔تو میرا بیگ تیار کر دے "۔ "ااچھا اماں ۔لاؤ بیگ تو دو ۔" شبو گو کہ نیند میں تھی مگر اماں کی بات ٹالنے کا مطلب تھا ۔پے درپے سست کاہل کام چور نکمی جیسے القابات معہ تیز و تند نظروں کے ساتھ سننا ٬ شبو جیسی لڑکی کے پاس اتنا حوصلہ نا تھا ۔ "یہ چار جوڑ میرے ۔یہ چار جوڑ تیرے ابا کے "۔انہوں نے کپڑے اپنے بیگ کے قریب رکھے ۔  "اچھا ۔لائیں رکھتی جاتی ہوں" ۔ شبو نے کپڑے لیۓ اور اچھے سے تہہ کر کے رکھنے لگی۔  "یہ تیری خالہ کو ساڑی ،اور خالو کو کپڑے ۔اور اسکی بہو کے لیۓ سوٹ ۔۔۔۔۔۔"اماں تھیں کہ سامان کا ڈھیر لگارہی تھیں ۔اور شبو اس سامان کو بیگ میں ٹھونسنے کی کوشش میں سر گرداں ۔  اور یہ چادریں ۔تولیہ تو ہمارے لیۓ ۔اور میرے اسنو ،پوڈر کا ڈبہ ۔"اماں نے بیگ پر اور سامان دھرا ۔  "اری او !خوش بخت ۔ایسا سامان لے جارہی ہے جیسے نئ نویلی دلہن مائکہ جارہی ہے "۔۔تخت پر بڑی دیر سے ان دونوں کو دیکھتے ابا نے اماں کو لتاڑا ۔ "اسنو پاوڈر ۔

تیرے لیۓ ۔

 تیرے لیۓ۔۔۔۔۔۔۔پارٹ  ون  "دروازہ کھولو ۔ارے کوئ دروازہ کھولو ۔"  وہ دروازہ پیٹتے تھک گئ تھی۔ شادی کے ہنگامے میں اس کی کون سنتا ۔باہر پٹاخوں کی آواز  سے کان پھٹے جارہے تھے ۔اور باراتیوں  کے شور شرابہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔ "دروازہ کھولو" ۔وہ پھر زور سے چیخی۔  "یا اللہ ۔اب کیا کروں" ۔ وہ اس فنکشن ہال کے اوپری پورشن میں آپھنسی تھی ۔وہ ابھی دس منٹ پہلے یہاں واش روم کے لیے آئ تھی۔ یہ اوپر کے پورشن کے سارے کمرے دولہے والوں کو دیۓ گۓ تھے ۔ چونکہ دولہا اس کا سگا خالہ ذاد بھائ تھا ۔ خالہ اور خالہ کی بیٹیوں کے ساتھ وہ بھی یہیں ٹک گئ تھی۔  یہ اتفاق ہی تھا کہ جب وہ واش روم میں گئ اس وقت کمرہ میں کوئ نہیں تھا۔وہ واش روم سے واپس آئ تو سب جا چکے تھے۔اور وہ تنہا اس کمرے میں کھڑی تھی ۔کمرے میں موجود واحد آئینہ میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا ۔سلک کے پیرٹ گرین ڈریس پر موتیوں کا ورک خوب جچ رہا تھا ۔ سیاہ بالوں میں گرین کلر کے موتی کا کلپ لگاۓ اور ہاتھوں میں سبز  سرخ موتی لگےکنگن ۔۔۔۔۔وہ اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے اپنے دوپٹہ کو اچھی طرح سے پن اپ کیا ۔اور باہر کی درواز ہ کی طر

سکہ رایج الوقت

 سکہ رائج الو قت ۔۔۔۔طنزو مزاح سکہ رائج الوقت کا سیدھا سادہ مطلب جسکی لاٹھی اسکی بھینس ۔۔۔۔۔اب جسکے ہاتھ میں بھینس مطلب حکومت کی باگ ڈور ہو گی ۔سکہ تو اسی کا چلے گا ۔چاہے کھرا ہو کہ کھوٹا ۔۔حکومت لنگڑی ہو کہ لولی ۔۔۔یا پھر اندھی بہری ۔۔۔اس سے سکہ کو کوئ فرق نہیں پڑے گا ۔حکومت کا کام چلانا ہے اور سکہ کا کام چلنا ۔۔۔کوئ اعتراض کی گنجائش نہیں ۔ اب ہمارے انڈیا میں ہی دیکھ لیں ۔سکہ مودی جی کا ہی چل رہا ہے ۔ انہوں نے نوٹ بندی کردی ۔کوئ کچھ نا کر سکا ۔طلاق ثلاثہ کا بل پاس ہوا ۔اور سارے مسلمان فیل ہوۓ۔ گاؤ کشی بھی جرم ٹہری اور قتل مسلمان جایز ۔ کیونکہ سکہ مودی جی کا چل رہا ہے ۔ اب مسلمانوں کو سوچنا چاہیۓ کہ انہیں کیسی حکومت چاہیۓ وہ حکومت جو انکے وجود کو مانے ۔۔۔۔یا وہ جو انہیں ہی کھوٹا سکہ بنا دے۔   

شادی میں قتل

 شادی میں قتل "آخر ایسا کیا ہوا کہ عین شادی کے دن دلہن نے خودکشی کر لی ۔"انسپکٹر فواد اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھا ۔وہ ابھی ابھی اس بنگلہ میں آیا تھا ۔اسے اطلاع ملی تھی کہ یہاں ایک دلہن نے خودکشی کر لی ہے ۔  "دیکھیۓ ۔انسپکٹر ۔۔۔"۔وہ دلہن کا بھائ تھا اس نے ہاتھ اٹھا کر انسپکٹر فواد کو بولنے سے منع کر دیا ۔ "یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے ۔اب کیا ہوا کیوں ہوا ۔یہ سب فضول ہے ۔یہ سیدھا سیدھا خودکشی کا کیس ہے ۔ آپ ایسے سوالات سے خوامخواہ الجھن  بڑھا رہے ہیں   ۔ اسکے چہرے پر اتنی کرختگی تھی کہ پتھر کا گمان ہو تا تھا "مسٹر ۔آپ ہمیں مت سمجھائیں کہ مجھے کیا سوال کرنا چاہیۓ اور کیا نہیں ۔ " "کیا یہ آپ بتا سکتے ہیں کہ دلہن کی اس شادی میں مرضی شامل  تھی کہ نہیں ۔" "وہ یہاں شادی نہیں کرنا چاہ رہی تھی ۔ بس اس وجہہ سے اس نے ۔۔۔۔۔۔" "ہمممم ۔تو آپ نے اس پر زبردستی یہ رشتہ تھوپا "۔ انسپکٹر فواد نے دلہن کے بھائ پر ایک تیز نظر ڈالی ۔ "ہاں ۔لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ وہ اس طرح کا انتہای اقدام کر لے گی ۔" دلہن کے بھائ نے جلدی سے کہا ۔  "ہ

ڈائری انٹری دسمبر

 ڈائری ۔۔۔۔۔۔۔دسمبر  کی شامییں  دسمبر کی آمد کے ساتھ ہی من بوجھل ہو جا تا ہے ۔ایسا لگتا ہے کوئ اپنا نہیں ۔اور ہم بس تنہا کھڑے ہیں ۔ زندگی کی ساری اداس شامیں دسمبر میں ہی یاد آتی ہیں ۔ دسمبر درخت سے بچھڑتے پتے کی یاد دلاتا ہے ۔شاخ سے ٹوٹے وہ زرد پتے نجانے کون کونسی دکھ بھری کہانی سناتے نظر آتے ہیں ۔ اپنوں کی بے گانگی  ،بےحس جذبے یا بے مروتی ۔ادھر ادھر وہ زرد پتے بکھر کر کیا کچھ نا یاد دلاتے ہیں ۔  میں بھی چاے کا ایک گرم پیالہ لیۓ کھڑکی میں بیٹھی ہوں ۔اور مجھے وہ سب لوگ یاد آتے ہیں جن کے ساتھ میں نے وقت گذارا تھا ۔کچھ کھٹی میٹھی یادیں میرے دل کو چٹکیاں لیتی ہیں ۔ہاں ۔ان میں سے کچھ لوگ اب میرے ساتھ نہیں ۔ رشتوں کو کھونے کا دکھ بلکل ویسا ہی ہوتاہے جیسے پت جھڑ کا دکھ ۔  شاخ سے ٹوٹے پتے مجھے بہت رلاتے ہیں ۔ دسمبر ان تنہا پتوں کا دکھ لیکر آتا ہے ۔ جو اپنا غم کسی سے بیان نہیں کرتے ۔بس جدھر ہوا لے جاتی ہے چلے جاتے ہیں۔ بنا کسی کو تکلیف  دیۓ۔کوئ ان پتوں سے نہیں پوچھتا کہ انکی منزل کہاں ہے ۔کوی ان پتوں کو اپنی مٹھیوں میں نہیں بھرتا ۔جو جھڑ جاتے ہیں وہ بس جھڑ ہی جاتے ہیں ۔انکا کوئ پرسان حال نہیں ہ

میرا آرڈر کہاں ہے۔

 میرا آرڈر کہاں ہے ۔  وہ ایک گھنٹہ سے اس رسٹورنٹ میں بیٹھی تھی ۔بلکہ اسکی تمام فیملی ۔جس میں مما پاپا اور اسکے بہن پھائ بھی ساتھ تھے۔ وہ لوگ شاپنگ کے لیۓ نکلے تھے ۔شاپنگ تو تقریباً ہو گئ تھی ۔ اب لنچ ٹائم ہو گیا تو یہ سب اس رسٹورنٹ میں آگۓ تھے۔  "چلو بھئ ۔اب سب جلدی جلدی آرڈر کردو"۔ ممی نے پرس سنبھا لتے کہا ۔  "مما مجھے پوری چاہیۓ"۔ فواد نے کہا ۔ "بیٹا پوری پوری چاہیے کہ آدھی۔۔۔۔۔" پاپا ہنس کر بولے ۔  "ون پلیٹ ۔     ۔۔۔۔۔"فواد نے جلدی سے کہا ۔ "ہمممم اور علینہ ۔تم سب بھی تو بولو" ۔  "مما اتنی گرمی ہے اور رسٹورنٹ کو تو دیکھو کھچا کھچ بھرا ہوا ہے ۔ایسا لگ رہا ہے آدھا حیدرآباد کھانے کے لیۓ یہیں آگیا ہو ۔" علینہ ٹشو پیپر سے اپنا چہرا صاف کرتے ہو ۓ بولی۔  "ہاں  لگ تو ایسے ہی رہا ہے ۔ سیٹ بھی بڑی مشکل سے ہی ملی ورنہ تو ہمیں کہیں اور جانا  پڑتا ۔"  پاپا نے آس پاس نظریں دوڑائیں ۔  رسٹورنٹ میں عام طور پر لنچ ٹائم ہمیشہ بزی جاتا ہے ۔ایک ہی وقت میں ہر کسٹمر کو سنبھالنا کافی مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس وقت وہ لوگ بھی ایسی ہی سچویشن میں