تیرے لیۓ ۔

 تیرے لیۓ۔۔۔۔۔۔۔پارٹ  ون 

"دروازہ کھولو ۔ارے کوئ دروازہ کھولو ۔"

 وہ دروازہ پیٹتے تھک گئ تھی۔ شادی کے ہنگامے میں اس کی کون سنتا ۔باہر پٹاخوں کی آواز  سے کان پھٹے جارہے تھے ۔اور باراتیوں  کے شور شرابہ نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی۔ "دروازہ کھولو" ۔وہ پھر زور سے چیخی۔ 


"یا اللہ ۔اب کیا کروں" ۔ وہ اس فنکشن ہال کے اوپری پورشن میں آپھنسی تھی ۔وہ ابھی دس منٹ پہلے یہاں واش روم کے لیے آئ تھی۔ یہ اوپر کے پورشن کے سارے کمرے دولہے والوں کو دیۓ گۓ تھے ۔ چونکہ دولہا اس کا سگا خالہ ذاد بھائ تھا ۔ خالہ اور خالہ کی بیٹیوں کے ساتھ وہ بھی یہیں ٹک گئ تھی۔ 

یہ اتفاق ہی تھا کہ جب وہ واش روم میں گئ اس وقت کمرہ میں کوئ نہیں تھا۔وہ واش روم سے واپس آئ تو سب جا چکے تھے۔اور وہ تنہا اس کمرے میں کھڑی تھی ۔کمرے میں موجود واحد آئینہ میں اس نے اپنے آپ کو دیکھا ۔سلک کے پیرٹ گرین ڈریس پر موتیوں کا ورک خوب جچ رہا تھا ۔ سیاہ بالوں میں گرین کلر کے موتی کا کلپ لگاۓ اور ہاتھوں میں سبز  سرخ موتی لگےکنگن ۔۔۔۔۔وہ اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے اپنے دوپٹہ کو اچھی طرح سے پن اپ کیا ۔اور باہر کی درواز ہ کی طرف بڑھی تھی ۔لیکن دروازہ باہر سے لاک دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئ۔ 

ایک منٹ کی بھی دیری کۓ وہ دروازہ پیٹنے لگی۔ مگر دس منٹ سے اوپر ہو گۓ تھے اسے پکارتے چیختے مگر کوئ فائدہ نا ہوا تھا ۔

وہ تھک ہار کر بیٹھ گئ ۔ 

اس کا وہ پرس بھی نہیں تھا جس میں اس کا فون تھا ۔

اب کیا کر سکتی تھی وہ سواۓ انتظار کرنے کے ۔

اس نے آخری بار زور سے دروازہ پیٹا تھا ۔

""کھولو ۔کوئ ہے" ۔ اس نے زور سے پکارا ۔ کہ تبھی اچانک دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا ۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹی ۔ 

"آپ کو اس طرح کس نے بند کیا ۔" کھولنے والے نے اسے حیرانی سے دیکھتے ہوۓ پوچھا تھا ۔اور وہ آس  کھوۓ اب مایوس سی بیٹھی تھی اس نو واردکی آواز نے اس کے اندر بجلی بھر دی ۔

" میں اندر واش روم میں تھی اور کسی نے باہر سے دروازہ لاک کر دیا تھا ۔ " 

 ۔پہلے اس نے اپنا دوپٹہ کو سر پر  لیا تھا  اور پھر کہا تھا ۔

"پتا ۔نہیں کیسے ۔۔۔" ۔وہ وضاحت دیتی باہر کی جانب بڑھنے لگی ۔

۔"میں آپ کی آواز یں سن کر ادھر آیا ۔پہلے تو یہی سمجھا تھا کہ میرا وہم ہے ۔مگر جب مسلسل دروازہ پیٹنے کی آواز آئ تو ۔۔۔۔۔"۔وہ بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔ 

"شکریہ آپ کا ۔"وہ جلدی جلدی نیچے کی جانب قدم بڑھا رہی تھی۔ لیکن اسے دیکھ کر رک گئ۔ وہ کھڑکی پر قدم جماۓ شاید کھڑکی سے کودنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

آ"آپ کیا کر رہے ہیں" ۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔ 

"آپ سیڑھیوں سے بھی تو جاسکتے ہیں۔"

"جی .مگر بن بلایا مہمان نہیں بننا چاہتا ۔اس لیۓ "۔وہ رکا تھا ۔اریشہ بھی رک گئ تھی .

"۔مگر آپ آ سکتے ہیں اگر آنا چاہیں تو ۔۔۔"

" نو  تھینکس ۔ "


"میں دراصل یہاں سائڈ والی بلڈنگ کے فرسٹ فلور میں رہتا ہوں ۔آپ کی آواز سیدھا میرے کمرے تک آرہی تھی جو کہ اس شادی ہال سے لگ کر ہے ۔اسی لیۓ میں یہیں سے آیا تھا دیکھنے کے لیۓ" ۔وہ اس کی حیرانی کو بھانپ کر وضاحت دینے لگا ۔ 

ا"اوہ اچھا "۔ وہ سمجھ گئ ۔ "لیکن آپ ہماری دعوت میں ضرور شریک ہوں ۔" اس نے اخلاقاً کہا تھا ۔

"ہوں ۔۔۔ویسے ۔" وہ اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا ۔

"بن دعوت کے کیسے آسکتا ہوں ۔میں تو بنگلور سے آج ہی آیا ہوں ۔ کام کر رہا تھا "۔وہ رکا ۔ ۔

"آپ ایسا کر دیں ۔آپ نیچے جا کر میرے لیۓ کھانا بھجوادیں ۔میں کھا لوں گا ۔بہت مہربانی ہو گی" ۔وہ کھڑکی سے اپنی بالکونی میں کود گیا تھا ۔وہ دیکھتی رہ گئ۔ وہ اسی کے بارے میں سوچتی نیچے آئ جہاں امی ایک گروپ کے ساتھ کھڑی تھیں ۔ 

"کہاں رہ گئ تھیں تم اریشہ ۔ ہم نے ہر جگہ تمہیں ڈھونڈا ۔میں تو باہر تک چلی گئ تھی تمہیں دیکھنے ۔مگر ۔۔۔۔"

ا"امی میں اوپر ہی تھی ۔کوئ جاتے ہوۓ مجھے دیکھے بنا لاک کر کے چلا گیا تھا۔وہ تو اچھا ہوا کہ ۔۔۔۔"

ا"اچھا خیر اریشہ ۔ان سے ملو "۔امی نے اس کی بات کاٹی اور ساتھ ٹہریں خواتین سے اس کا تعارف کروانے لگیں ۔ 

ان خواتین کے چہرے کھل اٹھے تھے اسے دیکھ کر .

"ماشاءاللہ ۔بہت پیاری ہیں ۔" ان میں سے ایک بزرگ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔اور وہ بس حیران ہو تی رہ گئ تھی کہ اتنی اچھی بھی نہیں لگ رہی تھی وہ ۔ 

ا"امی "۔ ان خواتین کے وہاں سے ہٹ جانے پر دل ہی دل میں وہ شکریہ بجاتی امی سے مخاطب ہو ئ تھی ۔ 

"جس بندے نے میری مدد کی نا ں وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہم اس کے لیۓ کھانا بھجوائیں تو ۔۔۔۔۔۔"

"کیوں اس کے گھر میں کھانا نہیں پکا جو ایسے کہہ رہا ہے ." 

"امی ۔۔۔۔۔آپ بھی ناں" ۔اس کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ 

"چپ کر کے بیٹھو ۔زیادہ سخی حاتم طائ بننے کی کوشش مت کرو اب رابعہ سے ایک اجنبی کے لیۓ کھانے کی بات کرنا اچھا نہیں لگتا سمجھیں "۔وہ کھانا کھاتے کھاتے اسے ڈپٹ بھی رہی تھیں ۔

"جی امی یہ بات بھی صحیح ہے۔" ۔وہ اپنی پلیٹ پر جھک گی تھی۔ یہ بھی صحیح تھا رابعہ خالہ ویسے ہی پریشان پریشان پھر رہی تھیں ۔شادی کے سارے انتظامات دیکھتے ہوۓ ۔ ایسے میں اک اجنبی کے لیۓ اس طرح کہنا اسے بھی اچھا نہیں لگا ۔اس لیے وہ بھی خاموش ہوئ اور پھر فنکشن ختم ہوا تو وہ گھر آگئ تھی۔

***********


آج شادی میں جا کر پندرہ دن ہو گۓ تھے اور اب امی کہہ رہی تھیں کہ اس کی شادی طۓ ہو گئ ہے ۔

ا"امی۔ ام ممم ی" ۔وہ سکتے میں آگئ ۔

"میری تو ابھی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئ ۔"

"ہاں تو کیا ہوا ۔تمہارے ابو کا ارادہ اب پڑھانے کا نہیں ہے ۔انہیں رشتہ بہت پسند آیا ہے ۔تمہیں شادی میں ملایا تو تھا" ۔امی  نے اسے یاد دلایا تو اسے وہ خاتون یاد آ گئیں ۔

"لیکن ۔۔۔امممممی "۔

ا"اب دیکھو بھئ ۔وہ لوگ شادی کے بعد پڑھانا چاہتے ہیں اس لیۓ بھی  اہو نے ہامی بھر لی ہے۔ "

ا"مگر بعد میں مکر گۓ تو ۔۔۔۔۔"

"تو مت پڑھنا ۔ویسے بھی تمہیں پڑھ کر کونسا ڈپٹی لگنا ہے." ۔امی نے اتنی لاپرواہی سے کہا تو وہ چپ کی چپ رہ گئ۔ 

یہ بھی سچ  تھا وہ جاب وغیرہ کی خواہش مند نہیں تھی ۔بس تعلیم مکمل کر نے کی آرزو تھی ۔

"دیکھیں گے "۔ اس نے بھی رضامندی دے دی ۔


********

اور اب دیکھتے دیکھتے شادی کا دن آن پہنچا تھا ۔وہ دھواں دار رونے میں مصروف تھی ۔جب اس کے کزنز وغیرہ اس کے شادی کا ڈریس لیۓ آگئیں ۔ 

ا"اللہ اریشہ ۔دیکھ تو ۔کتنا پیارا ہے ۔" روتے روتے اس نے ڈریس دیکھا میرون خالص ریشم کا بنا وہ گاؤون جس پر موتیوں کا ہیوی ورک تھا ۔سفید سرخ موتیوں سے بنے پھول ۔وہ رونا بھول گئ۔ 

ا"اتنا خوبصورت "۔اس نے ڈریس پر انگلیاں پھیریں ۔ اب یہ شادی اتنی بری پھی نہیں لگ رہی تھی۔ 

"یہ لو شادی کا جوڑا دیکھ کر یہ تو رونا ہی بھول گئ "۔اس کی کزنز ہنسنے لگیں ۔ 

اس نے شرما کر سر جھکا لیا تھا ۔

 نکاح بھی ہوگیا اور اور ۔۔۔۔مہمانوں کی رخصتی ہوتے ہوتے اس کی رخصتی بھی ہو گئ ۔امی ابو خالہ ساری کزنز اس کے گلے لگیں رو رہیں تھیں ۔ رخصتی کا وقت ایسے ہی تو ہو تا ہے ۔وہ بھی ابو کے گلے رو رو کر ہلکان ہو گی تھی اور بڑی مشکل سے ابو نے گاڑی میں بٹھایا تھا "۔فوزان بیٹے ۔میری اریشہ کا خیال رکھنا ۔"

ابو کی رندھی اواز بر وہ اور رونے لگ پڑی تھی ۔

فوزان ابو سے مل کر گاڑی میں آ بیٹھے تو گاڑی چل پڑی۔ 

فوزان کا گھر اس کے گھر سے دو گھنٹے کی مسافت پر  تھا۔ اب گاڑی میں اس کی دو نندیں اور ایک جٹھانی اور ساس بیٹھی تھیں ۔ساس نے اسے ایک ہاتھ سے سنبھالا ہوا تھا ۔

"فوزان بھائ ۔اب تو ہم سب تھک گۓ ہیں آپ ایسا کریں چاۓ پلا دیں ۔سچ میں گھر جانے کے بعد اب کچھ نہیں ہوگا ہم سے "۔یہ اس کی نند تھی ۔

"ہاں تو جاکر تو سونا ہی ہے ۔کرنا کیا ہے اب تمہیں "۔ وہ دلہن پر پر شوق نظر ڈالتا بہن سے مخاطب تھا ۔

آ"آگے اور رسمیں ہیں بھائ ۔اور دو گھنٹے لگ جانے ہیں آپ کو ۔ "وہ ہنستے ہوے بولی تو فوزان کراہا "۔ہاۓ یہ ظالم رسمیں ۔۔۔۔"

ا"اب رسم رواج کو ٹو کو مت ۔یہی تو خوبصورتی ہوتی ہے شادی بیاہ کی "۔اس کی ساس نے ان دونوں کو ڈانٹا ۔

فوزان نے ایک ہوٹل کے قریب کار رکوائ تھی۔ 

"ماموں ۔مامی بہت پیاری ہیں  ۔دیکھیں تو مہندی کتنی اچھی چڑھی ہے" ۔اس کی  چار سالہ بھانجی نے اس کا ہاتھ فوزان کے سامنے کیا تھا ۔ 

ا"اچھا  یہ تو میک اپ کا کمال ہوتا ہے ۔کل بھی یہی کہو گی تو مانیں گے "۔ وہ اس ہاتھ پر استحقاق بھری ایک نظر ڈالے گویا ہوا ۔ گاڑی میں بیٹھے سبھی افراد ہنسنے لگے تھے۔ 

"ہماری بہو تو دیکھنا کل اور خوبصورت لگے گی کیوں نجمہ" ۔اس کی جیٹھانی نے شوخی سے اپنی نند کو دیکھا تھا ۔

"جی بلکل بھابھی ۔کل صبح پوچھیں گے بھا ئ سے ۔"

"پتا نہیں صبح پہچانی جائیں گی  بھی کہ نہیں "۔ فوزان نے مصنوعی آہ بھری تھی ۔اس کی اس بات پر قہقہہ پڑا تھا ۔لیکن اریشہ کو بہت برا لگا تھا ۔

"یہ بندہ بھی ناں ۔ بھلا اس طرح کوئی کہتا ہے کیا اپنی وائف کے متعلق ۔آج تو ہر دلہن ہی میک اپ کرتی ہے ۔میں نے کیا تو کونسا گناہ کیا ۔اب جاتے ہی واش روم ملا تو رگڑ رگڑ کر میک اپ ہی صاف کر دوں گی ۔نا رہے بانس نا بجے بانسری ۔۔۔"۔اس نے بیٹھے بیٹھے مصمم ارادہ کر لیا ۔

ا"اریشہ یہ چاۓ تو لے لو ۔"رعنا  کی آواز پر اس نے چونک کر دیکھا ۔فوزان اسے چاۓ پکڑارہا تھا ۔بس ایک پل کے لیے اس کی نظر ملی تھی مگر اس نے جلدی سے نظر جھکالی تھی۔ ۔چاۓ پیتے ہی گاڑی پھر سے رواں دواں ہو گئ تھی ۔لیکن اریشہ تھی کہ اپنی ہتھیلیوں پر نظر جماۓ دل کی دھک دھک سن رہی تھی۔

اس کی نند کے مطابق ساری رسمیں پورے کرتے کرتے اور دو گھنٹے لگے تھے۔ ایسے ہی ہنسی مذاق کے ماحول میں اسے بیڈروم بھی پہنچادیا گیا ۔

وہ جو رگڑ رگڑ کر میک اپ صاف کرنا چاہ رہی تھی بیٹھی کی بیٹھی رہ گئ تھی ۔فوزان اندر آچکا تھا ۔

اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اس کے فون  کی بیل رنگز ہونے لگیں .

"کیا ہے یار ۔کیوں تنگ کر رہے ہو ۔"فوزان ہنستے ہنستے فون پر بات کر رہا تھا ۔

ا"اب رکھ دو فون ورنہ تم سب کو تو میں دیکھ لوں گا ۔"

"ہاں ابھی نہیں دیکھا ۔تم لوگ فون بند کروگے تو دیکھوں گا ناں ۔"

"نہیں بات بھی نہیں ہوئ "۔اس نے فون کاٹا ۔

اریشہ جھکی جھکی پریشان ہو گئ تھی ۔"اب یہ کیا ہے ۔ "

ا"اف یہ دوست بھی نا۔۔ایسے دشمن نما دوست اللہ کسی کو نادے ۔" وہ بیڈ پر بیٹھا ہی تھا کہ پھر سے فون بجنے لگا تھا ۔زندگی میں پہلی بار اریشہ کو بھی وہ فون بیل زہر لگ رہی تھی ۔ 

" ٹھیک ہے یار کر لو ۔تم بات۔"

۔" ہاں .وہ کیٹرنگ کو سب کچھ بتا دیا ہے ۔" 

 " اور پھول والوں کو کہہ دیا تھا ۔۔"

 ۔" اب تم مجھے تنگ کرنا بند کروگے کہ ۔۔۔۔"۔۔وہ اب بس دھمکی دینے پر آیا تو  اس کے دوست ہنستے ہوے فون رکھ چکے تھے ۔

ا"اللہ تیرا شکر۔۔"۔وہ فون رکھ کر اس کی طرف پلٹا تھا ۔

آ"آپ کوکچھ نہیں کہنا ۔"

اریشہ جو اسکی جانب ہی دیکھ رہی تھی ۔ ایک دم سے نظر جھکا گئ۔ 

آ"آپ نے مجھے پہچانا بھی کہ نہیں "۔ایک نیا سوال ۔

لو وہ اس غیبی فرشتہ کو کیسے نا پہچانتی ۔اس نے صرف اثبات میں سر ہلایا تھا۔ ۔

"یہ اتفاق بلکہ حسین اتفاق تھا کہ میں نے جس حسین پری کی ہلپ کی تھی وہی حسین پری میری امی جان کو بھی پسند آئ ۔انہوں نے نے مجھے آپ کی تصویر دکھائ تو میں حیران کم خوش زیادہ ہوا ۔آپ سے بلمشافہ ملاقات ہوگئ تھی ۔انکار کا کیا جواز ۔فورا ہاں کر دی" ۔وہ پرشوق نظریں اس پر جماۓ رک رک کر بتا رہا تھا ۔ اب وہ کیا بتاتی ۔اس نے نا تصویر دیکھی تھی نا اسے کسی نے کچھ بتا یا تھا کہ وہ وہی ہے جس نے اس کی ہلپ کی تھی ۔ ۔۔۔ابھی اسے دیکھ کر وہ شاک تو ہو گئ تھی  مگر کچھ کہہ نا سکی ۔ساری حکایتیں تو بس دلہے میاں کے پاس تھیں ۔ 

"ویسے ۔۔۔میں نے بہت انتظار کیا تھا اس دن ۔۔کہ آپ کسی کے ہاتھوں کھانا بھجوائیں گی مگر اللہ رے آپکی بے مروتی ۔۔۔۔ساری رات بھوکا رہنا پڑا تھا "۔شکوہ نما انداز تھا۔

"میں نے امی کو کہا تھا مگر امی نے کہا ایک اجنبی کے لیۓ اتنی فکر کرنے کی ضرورت نہیں تو بس ۔۔۔۔۔"اس کی بات پر وہ بے ساختہ بول پڑی تھی ۔اپنی صفائی بھی تو دینی تھی ۔

ہ"ہمممم ۔۔۔۔اجنبی ۔۔وہ اجنبی اب زندگی بھر کا ساتھی ہے ۔اب آپ کیا کہیں گی "۔ اس کے ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتا وہ اسے بے بس کر رہا تھا ۔اریشہ کو یہ بےبسی بھی پیاری لگ رہی تھی۔ 


 





 ۔




 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

قلم اور اہل قلم

کرسی کرسی کرسی

دیا اور روشنی