قلم اور اہل قلم

قلم اور اہل قلم



یوں تو قلم سے انسان کا رشتہ پرانا ہے۔مگر زمانہ قدیم میں قلم کی جگہ پرندوں کے پر وغیرہ استعمال کۓ جاتے تھے  تھے۔رفتہ رفتہ زمانہ کی ترقی کے ساتھ قلم کو بھی ترقی سوجھی اور وہ پرانے طرز کے قلم سے جدید قلم بن گیا ۔اور اس نے اپنا چولا ہی بدل 
دیا۔اب بھلا اگلے وقتوں کے لوگ (چچا غالب) کہاں سوچ سکتے تھےکہ آگے ایسا بھی ہوگا کہ حضرت انسان لکھیں گےمگر پر والے پن سے نہی ،بال پواینٹ  پن سے جس میں نہ سیاہی دوات کی جھنجھٹ ،نہ روشنائ کا گہرا ،مدھم ہونے کا ڈر ،قلم ہاتھ میں لیا تو بس لکھتے چلے جاؤ,لفظ ہاتھوں اور قلم سے جیسے پھسلتے جا رہے ہیں اور کاغذ پر ابھرتے چلے آرہے ہیں۔بال پن کا اک فائدہ ہے کہ لفظ تیزی سے بنتے چلے جاتے ہیں۔اب زمانہ بھی تو بھاگتا ہوا زمانہ ہے۔اب کون چچا غالب کی طرح قلم دوات لیے ،بیاض لیے گھنٹوں مشق سخن کرے گا ۔لیکن پہلے بھی تو اہل قلم ہوتے تھے ،کہاں وہ تحریر کی خوش خطی،جمے ہوے الفاظ ایسے جیسے موتی پروۓہوں۔خیال کی ندرت ایسی کہ پڑھتے ہی طبعیت باغ با
غ ہو جاتی تھی بلکہ آج بھی ہوتی ہے۔آج بھی اس زمانہ کی تحریر پڑھیں وہ تحریر تروتازہ محسوس ہوگی۔پڑھنے کے بعد دل دماغ پر اک سرور سا چھا جاتا ہے ۔وہیں آج کے اہل قلم بھی ہیں۔بال پن سے لکھنے والے بال پن سے لکھنے والا قلمکار بہت تیز لکھ سکتا ہے۔تحریر میں روانی آتی ہے۔مگر آج کے قلمکار کے دماغ اتنے تیز نہیں کہ تیز قلم اور زمانہ کا ساتھ دے سکیں ۔جدید قلم استعمال کرتے ہیں مگر خیال میں ندرت نہیں ،وہی گھسا پٹا رونا روتے رہتے ہیں۔قلم تیز ہے مگر قلمکار کی تحریر میں وہ تیزی نہیں۔وہ آج بھی جدید قلم استعمال کرتے ہوۓچچا غالب جیسے شاعر اور کلاسک ادیبوں کی نقل اتارتا رہتا ہے
۔آج کے قلمکاروں کی اپنی انفرادیت نہیں رہی۔کچھ قلمکار تو بال پن کی اس خوبی  کا کہ«بس لکھتے چلے جاؤ» کا اسطرح فائدہ بلکہ ہمارے خیال میں ناجایز فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اتنا لکھتے چلے جاتے ہیں کہ بےتکے پن پر اتر آتے ہیں جسکو پڑھکر قاری اوب جاتا ہے۔
قدیم زمانہ کی فن تحریر اور اس زمانہ کی فن تحریر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔آج کل کے قلمکار کی تحریر ایسی ہوتی ہے کہ جیسے وہ دنیا سے بیزار ہو چکا ہو،فن تحریر سے اوب گیا ہو،حسرت ویاس کی تصویر ہو گیا ہو ،ناقابل فہم ٹیڑھے میڑھے راستوں کی طرح تحریر ہوتی ہے جسکو پڑھنے والا بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے ۔
عجیب داستاں یہ کہاں شروع کہاں ختم 
سوچتا رہ جاتا ہے۔
اگر دیکھا جاۓ تو ایک قلمکار کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے۔وہ اپنے قلم سے بہت کچھ کر سکتا ہے زمانہ میں انقلاب لا سکتا ہے ۔ذہنی تربیت دے سکتا ہے۔اپنی  تحریر کو مقصد سے آراستہ کر سکتا ہے اسکو مفید بنا سکتا ہے۔مگر آج کا قلمکار ،آج کے قلم کی طرح" یوز انڈ تھرو" ہو گیا ہے ۔یعنی پڑھو اور بھول جاۃ۔تحریر بے مقصد ،غیر دلچسپ،ناقابل فہم ہوگی تو کون قاری اسکو یاد رکھے گا۔آج کے قلمکار کی تحریر ایسی ہوتی ہے کہ بس بس کیا پڑھے یاد نہیں رہتا۔
پہلے اہل قلم اپنی قلم کو تلوار بنا لیتے تھے،سو ۓ ہوۓ ذہنوں کو جگانے کا کام لیتے تھے ۔نیز قلم سے نشتر کا کام لیتے تھےمعاشرہ میں رائج فرسودہ رسم و رواج اور برائیوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔مگر صاحب آج کا قلمکار،جی ہاں قلم تو اس کے لئے بھی تلوار ہے مگر زنگ آلود تلوار جس کو وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔گویا ایک دوسرے کو کند چھری سے ذبح کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگا رہتا ہے۔تنقید برائے تنقید کرتا چلا جاتا ہے۔قلم سے شخصی مخاصمت نکالنے میں لگا رہتا ہے۔اور قلم سے ایک دوسرے کی کاوشوں پر نکتہ چینی کرتا ہے۔اور اس لفظی جنگ میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ہمارے اس مضمون کو خدا را غلط نہ سمجھیں،اور نہ قلمکار حضرات اسکو شخصی حملہ سمجھیں۔ہم تو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ سب سے محترم چیز تو قلم ہے۔قلم کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے کچھ با مقصد تحریر کے لیے استعمال کیا جائے۔ورنہ لکھ تو سبھی رہے ہیں مگر حقیقت میں پڑھے کتنے جا رہے ہیں اور یاد رکھنے کے قابل کون قلمکار ہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ہمارا تو ماننا ہے کہ سب سے مقدم کام قلم کا احترام ہے۔یہ ہر قلمکار کا فرض ہے۔قلم کے تیں عقیدت کا اظہار کر نا ہے تو اپنے قلم کو نشتر کی طرح سماجی برائیوں کے خلاف استعمال کریں۔اپنی تحریر کو بامقصد بنایئں قلم سے اپنی منفرد شناخت بنائیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کرسی کرسی کرسی

دیا اور روشنی