دیا اور روشنی

دیا اور روشنی
صدیوں سے تاریکی اور دیا ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔جہاں تاریکی ہے وہاں دیا ،اس تاریکی ،اس اندھیرے کو دور کرنے کےلیے موجود رہتا ہے۔گویا دیا اور تاریکی میں اک قسم کی جنگ ہے۔اس جنگ میں کبھی تاریکی کی جیت ہوتی ہے اور کبھی دیا کی۔گو دیا زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا ہوا بہت آگے نکل چکا ہے۔اور اسکی شکلیں مختلف ہیں۔لیکن اسکاکام وہی ہے جو کل تھایعنی تاریکی کو دور کرنا،اجالا و روشنی پھیلانا،دیا کی اہمیت اس سے بھی لگای جاسکتی ہے کہ جب جنگل میں ہر طرف گھپ اندھیرا ہو تاریکی ہر سمت ہو وہاں بہت دور کہیں کسی جھونپڑی یا کٹیا میں اک دیا روشن ہو تو مسافر کو راہ سجھای۶ دیتی ہے۔وہ ٹمٹماتے دیے۶ کی مدھم سی ہی سہی روشنی میں اپنی راہ لیتا ہے۔اور بلآخر منزل پر پہنچ جاتا ہے۔اس طرح دیا تاریک راہوں میں ایک راہگیر کو منزل کا پتا دیتا ہے۔

اسی طرح اگر ہم ایک انسان کو مسافر سمجھ لیں چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔اور انسان کو اس دنیا سے اس دنیا تک کا سفر طے۶ کرنا ہے۔تو انسان کو یہ سفر کتنا دشوار گزار لگتا ہے۔ہمیں پتا نہیں یہ سفر کب ختم ہو جاے۶،اور ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ ہمارہ یہ سفر کب ختم ہو جاے۶۔ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ ہم منزل تک پہنچ پاینگے یا نہیں،منزل مقصود ملے گی بھی یا نہیں ،تاریکی ہر طرف چھای۶ ہوی۶ہے اور نا کوی۶ راہ سجھای۶ دیتی ہے ۔ایسے میں ہم الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں کہ آخر اس سفر میں ہمیں منزل کا پتا کون دےگا۔تب وہ چھوٹا سا دیا اپنی مدھم سی روشنی سے ہمیں راہ دکھانے لگتا ہے،تاریکی دور کرنے لگتا ہے۔ہمارے ذہن میں سوال اٹھتے ہیں کہ یہ دیا کون ہی۔یہ روشنی کہاں سے آرہی ہے۔یہ ہمیں کس سمت لیے جارہی ہے۔تب بجلی کی چمک کے ساتھ ہمیں جواب موصول ہوتا ہے کہ دل کے دیے۶ میں ضمیر کی روشنی ہے جو ہماری بدی کی تاریکی کو مٹاتے ہوے۶ راستہ بتا رہی ہے۔
اللہ تعالی نے ہمارے دل کو آزاد چھوڑ رکھا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔چاہے تو دیا بنکر روشنی پھیلا سکتا ہے یا چاہے تو اپنی ہی کٹیا کو آگ لگا سکتا ہے۔
ایما ن اور ضمیر کی روشنی ہماری زندگی کے اندھیروں کو کم کر سکتی ہےاور آخرت میں ہمارے اعمال کو ضیا۶ عطا کر سکتی ہے۔نیکی اور بدی کی پہچان ہو تو ہمارہ دل جلتے ہوے۶ دیے۶ کی مانند روشنی ونور پھیلاتا ہے۔اور تاریک راہوں کو روشن کرتا ہے۔اس لیے ہر انسان کو اپنے دیے۶ کی حفاظت کرنی چاہیے۶۔اسکی روشنی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۶۔
لیکن اک عورت کو تو اس بات کے لیے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے۶ کہ اس کے گھر میں اجالہ برقرار رہے ایمان کی روشنی سے گھر کو منور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۶۔کیونکہ جس طرح اک مرد کی کامیابی کے پیچھے اک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔اسی طرح اک مرد کو بھٹکانے،بہکانے میں بھی اک عورت کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔زر کی ہوس میں عورت اپنا گھر گناہوں کی آگ میں پھونک ڈالتی ہے۔اس قسم کی خواتین کو حلال،حرام پیسے سے غرض نہیں رہتی ۔انہیں صرف دولت سے غرض رہتی ہے۔چاہے وہ دولت سود سے کمای۶ گی۶ ہو ،رشوت سے کمای۶ گی۶ ہو ،کسی کا مال غصب کر کہ کمای۶ گی۶ ہو ،کسی بھی ناجایز طریقہ سے کمای۶ گی۶ہو۔انہیں اس بات کی پرواہ نہیں رہتی ۔حالانکہ ایک عورت کو اس بات پر توجہ دینا چاہیے کہ اسکے گھر کا چولہا کہیں حرام مال سے تو نہیں جل رہا؟اسکے حلق میں جو لقمہ اتر رہا ہے وہ حرام تو نہیں کیونکہ حرام مال کھا کر کی جانے والی کوی۶ بھی عبادتاللہ تعالی کے یہاں مقبول نہیں۔تو پھر آپکی عبادت نماز روزہ ہر چیز ضایع ہو جایگی اسکے بعد ایمان کی روشنی مدھم پڑ جایگی ۔دیے۶ کی لو کم ہونے لگے گی۔اور بلآخر دیا بجھ جاتا ہے ۔یعنی انسان کو گناہ کی اتنی عادت ہو جاتی ہے کہ گناہ کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔دل میں تاریکی پھیل جاتی ہے۔اور انسان تاریک جنگل میں بھٹکتا پھرتا رہتا ہے لیکن منزل نہیں ملتی ۔
اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے دین کی حفازت کریں ۔اسکی لو کو کبھی مدھم نا ہو نے دیں۔دین وایمان پر قایم رہیں گی تو دیے کی روشنی تیز رہے گی۔جو کہ صحیح راستہ کا پتا دےگی۔ضمیر روشن ہوگا تو اس روشنی میں منزل صاف نظر آیےگی۔تاریکیاں روششنیوں میں بدل جاینگی ۔اور دل ومکان اللہ کے نور سے منور رہےگا۔اور یہ ایمان کی روشنی سارے جہاں میں پھیل جایگی۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

قلم اور اہل قلم

کرسی کرسی کرسی