اشاعتیں

نومبر, 2021 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ٹایم ٹراویل

 کہتے ہیں وقت کبھی ٹہرتا نہیں ۔اور ٹہرے گا بھی کہاں  ،جبکہ ٹہرنے کے لیۓ اسکو  جگہ بھی نہیں ملنی ۔ہاں۔ نا وقت کو روک سکتے ہیں نا وقت کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں ۔وقت  ہمیشہ چلتا رہتا ہے ۔اور ہمیں بھی وقت کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے ۔بلکہ کبھی کبھی بھاگنا بھی پڑتا ہے ۔ایسے ہی وقت کے ساتھ بھاگتے دوڑتے ہمارے کچھ اگلے وقتوں کے شاعر اکیسویں صدی میں آگۓ ۔مثلا غالب میر  وغیرہ ۔اب ہم دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی میں ان شاعروں کی مصروفیات کیا رہیں گی۔ وہ کیا کرینگے اور کیا نا کرینگے ۔  ۔   نہایت خوبصورت،سا شخص جس نے  ہو بہو فواد خان جیسالک اپنا یا تھا ۔اپنی ڈیپی بدل رہا تھا کہ  "آپ پھر فیس بک پر جا کر بیٹھ گۓ۔ہمیں پتا نہیں تھا ورنہ ہم بادشاہ سلامت کو کہہ دیتے کہ یہ موا "لیپ ٹاپ "نا دیں ۔"ہاۓ!مرزا غالب... غالب نا رہے" " آپ کو کہا بھی تھا مہینہ کا راشن ختم ہو گیا ہے۔ہم نے لسٹ بنا دی ہے جائیےاور کسی بھی سوپر مال سے لے آئیں۔مرزا غالب کی اہلیہ محترمہ نے اپنے تازہ تازہ بیوٹی پارلر سے کٹواۓبالوں کو  ایک ادا سے جھٹک کر کہا۔ "جی !جانو جی ،ارادہ باندھا تو تھا جانے کا"مگر ع ۔ ف

مور کے پنکھ

 جی ہاں پھر آگۓ آپ تمام کو رلانے ۔۔۔۔ننہیں ہنسانے ۔ آپ کی مرضی ہے بھی چاہے تو ہنسیں ،چاہے تو روییں ۔ اب بھلا مور کے پنکھ کو لیکر ہم نے کیا لکھنا تھا ۔کہاں مور اور کہاں ہم ۔ مور ایک بہت خوبصورت پرندہ ہوتا ہے ۔اسکے پر اتنے پیارے اتنے رنگین ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے ۔اسکے پر نوچ لیں اور خود لگا لیں ۔اب مور کی طرح ناچنے  سے تو رہے ۔ ہاں ۔جیسے آیا ویسے پھدکتے رہیں گے ۔یہ سوچکر کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا ۔  مور کے پنکھ کو ہمارے ہاں چھپکلیوں کو بھگانے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ہم نے بھی ایسی کوشش کی مگر چھپکلیاں اتنی ڈھیٹ تھیں ۔مور کے پنکھ ہی گرادیے ۔مگر بھاگیں نہیں ۔ بلکہ ہمارے ہر کمرے میں دندناتی پھرتیں ہیں ۔اور ہم انہیں اور گرے ہوئے مور کے پنکھ کو دیکھتے ہیں ۔اب اگر کسی کے پاس کچھ اچھی ترکیب ہے تو بتائیں ورنہ رہنے دیں ۔ (سارا دن گذر گیا ۔اب جلدی جلدی میں لکھا ہے کہیں ٹاپک ہی نا آؤٹ  ہو جاۓ۔) 
 بھیڑ سے الگ ۔۔۔۔۔ سوچا ہے کہ کچھ الگ لکھیں ۔کچھ ایسا جو بھیڑ میں بھی ہماری شناخت بناۓ رکھے ۔انسان ساری زندگی لگی بندھی طرز زندگی کو ہی اپنا تا ہے ۔شاید اس لیۓ کہ یہ سہل ہو تا ہے ۔سب کے ساتھ چلنا زیادہ آسان ہو تا ہے بجاۓ اس کے کہ اپنی الگ راہ نکالنا ۔ وہ سب کزنز آنگن میں ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھی تھیں ۔فرح ،کنزی مہ جبین اور صفا ۔عرشیہ ۔ چلو  لڑکیو ۔اب سب اپنی راۓ دو ۔اس ٹاپک پر ۔اچانک فرح اٹھی اور ہاتھوں کو مایک کے انداز میں لیا ۔ زندگی کیسی گزارنی چاہیۓ۔  تو بتائیۓ عرشیہ ۔آپ زندگی کیسی گزارنا پسند کریں گی۔  ہمممم ۔میرے خیال میں زندگی ہمیں ایک ہی دفعہ ملتی ہے تو اسکو پوری آزادی کے ساتھ انجواۓ کرتے ہوۓ گزارنی چاہئۓ۔ میری کوئ خواہش ادھور ی نا ہو ۔ڈھیر سارا پیسہ ہو اور مجھے ہر آرام نصیب ہو ۔ عرشیہ نے اپنے ہاتھوں میں ڈرائ فروٹ  لے کر کھاتے ہوۓ کہا ۔تو سب ہنسنے لگیں ۔ اور ڈھیر  سارے پیسے کے لیۓ ڈھیر ساری محنت بھی کرنی پڑتی ہے وہ کون کرے گا۔۔  جو میرے ساتھ زندگی گزارے گا وہ۔    ۔۔۔۔۔۔ اسکے اطمینان سے کہنے پر سب ہنسنے لگیں ۔  ہاں تو آپ لوگوں کو  مس عرشیہ کے خیالات  جاننے کو ملے ۔اب آپ بتا