اشاعتیں

اگست, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں
  ✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓✓  وہ دونوں اس ہاسپٹل میں آۓ تو بہت پر امید تھے ۔ایک خوابوں کا جہاں بساے بیٹھے تھے ۔جہاں ہر چیز مکمل تھی ۔محبت ،خوشی اور ایک مکمل فیملی کا احساس۔ ان دونوں کا ایک ہی سوال تھا اور جواب اس لیڈی ڈاکٹر کے پاس تھا ۔اور جواب کیا تھا۔وہ دونوں جاننے کے لیۓ بے تاب تھے۔  اس نے اپنے ہاتھ بلکل سختی سے جکڑے رکھے تھے۔ جبکہ کرسی پر اپنا دباؤ بھی برقرار ذکھنے کی کوشش میں وہ جیسے سلف کنٹرول کھو رہی تھی۔  اور جب ڈاکٹر نے ربورٹ کھولنے کے لیۓ اپنا دایاں ہاتھ اٹھا یا تو  وہ   قسمت کی لکیروں میں الجھتی جارہی تھی۔

تنہائ کا ساحل ۔۔۔

 تنہائ کے ساحل  یہ عنوان تھوڑا پیچیدہ سا لگا ۔یعنی تنہائ کے ساحل کیسے ہو تے ہیں ۔  لیکن آج صبح ہی اپنے وہاٹس ایپ گروپ میں مجھے نوٹی فکیشن آئ کہ فلاں نے گروپ میں کچھ پوسٹ کیا ہے۔  میں نے گروپ کھولا تو یہ ایک رشتہ گروپ تھا جس میں میں بھی ایڈ تھی ۔اپنے رشتے کے لیۓ نہیں کچھ اپنے بہن بھاییو ں کے لیۓ ۔ 😬 دراصل اس گروپ میں‌ایک بندہ شاید ابنی بیٹی یا بہن کے لیۓ رشتہ کے لیۓ بار بار اس افسانہ لڑکی کا بایؤ ڈیٹا ڈالتا ہے ۔اور میری  اکثر اس لڑکی کی پرو فایل پر نظر پڑ جاتی ہے ۔  پہلی بار میں میں نے اسے سر سری لیا تھا ۔ لیکن جب بار بار اس لڑکی کی پروفائل اس گروپ میں گردش کرنے لگی تو میں سوچنے پر مجبور ہو گئ  ہوں کہ لڑکیوں کی شادی کتنا بڑا مسءلہ بن چکی ہے ۔ یقینا اس بچی کے باپ بھائ  اس لڑکی کے رشتہ کو لیکر فکر مند ہونگے ۔ آخر ہم‌سب نے شادی بیاہ کو اتنا پیچیدہ کیوں بنا دیا کہ کئ لڑکیاں اپنی تمام عمر تنہائ کے ساحل پر گزارنے پر مجبور ہو گئ ہیں ۔ آخر اس  لڑکی "افسانہ " کا کچھ تو خوشگوار انجام ہو ۔یا یہ افسانہ بھی ادھورا رہ جائیگا ۔بے جا رسم و رواج  یا اعلی شادی کے معیار بنا کر ہم آخر کتنے بچے ب

سوۓ ہوۓ نصیب ۔۔۔

 سوۓ ہوۓ نصیب ۔۔۔۔جاگتا ہوا دل وہ جب پیدا ہوئ تو اسے دیکھ کر سب کو دلی صدمہ ہوا ۔ اسکا رنگ اتنا کالا تھا کہ رات کا گمان ہو تا تھا ۔ ماں نے بیٹی کو اپنی آغوش میں لیا اور اسکی دینی تربیت میں مصروف ہو گئیں ۔  ایک تو بیٹی ،رنگ کالا اور غریبی ۔۔۔۔ایسی میں وہ جب جوان ہوی تو اس کے لیۓ رشتوں کا کال پڑ گیا ۔ گورے رنگ پر مر نے والے لوگ ۔ایک کم رنگ لڑکی کو کیوں بیاہ لے جاتے۔  بڑی مشکل  سے ۔ دور دراز کے لوگوں میں اسکا رشتہ ہوا ۔ لوگ بے حد جاہل  تھے ۔ بات بات پر گالی گلوج ۔کرنا معمول تھا ۔ وہ ماں کے دیۓ صبر کے سبق کو پڑھتی زندگی گذار رہی تھی۔ شوہر کچھ سال اچھا رہا پھر اس کے بھی رنگ ڈھنگ بدلنے لگے۔  ایک گوری عورت سے سابقہ پڑا اور وہ اسکی زلفوں کے اسیر ہو گیا ۔  نوکری سرکاری تھی۔ دو شادیاں کرنے پر ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا ۔اس لیۓ اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جانے لکے ۔ مقصد آس کو گھر سے نکالنا تھا ۔مگر باپ کی غریبی اور عزت اسے گھر سے جانے کے لیۓ روک رہی تھی۔ اسکا کھانا بند کیا گیا اس پر بہتان الزام تراشی کی گئ ۔ مگر وہ صبر و استقلال سے ڈٹی رہی ۔  شوہر بنا نکاح کے اس عورت کو گھر میں لے آیا ۔ ی

رم جھم بارش ۔۔۔نویں قسط

 رم جھم بارش ۔۔۔۔نویں قسط ندرت بھاگتے ہوۓ اوپر چلی گئ تھی۔ اس نے شاید مجھے نہیں دیکھا تھا ۔ میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا ۔وہ کمرہ میں بیڈ بر گھٹنوں میں سر دیۓ ہوۓ تھی۔ شاید رو رہی تھی۔  "ندرت" ۔میں نے اسے پکارا ۔ اس نے سر نہیں اٹھایا۔  "کیا ہوا "۔ اب میں کچھ اور نزدیک آیا ۔تو اس نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے۔  "کچھ نہیں ۔"  ایک  زخمی مسکراہٹ میرے لبوں پر آئ تھی ۔ کتنا بھرم رکھتی ہے یہ لڑکی۔  "چلو ۔قریب میں  ایک پارک ہے وہاں جاتے ہیں" ۔ میں نے نرمی سے کہا تو وہ نفی میں سر ہلا گئ۔  "پلیز ۔۔۔"۔میں نے عاجزانہ انداز میں کہا تو وہ خاموش ہو گئ۔  "آپ چلیں میں چادر لے کر آتی ہوں" ۔وہ اٹھی تو میں بھی باہر آگیا کچھ ہی دیر میں وہ بھی آگئ تھی ۔  ہم جب پارک میں پہنچے تو چار بج رہے تھے۔ موسم میں بہت حدت تھی اور حبس بھی زیادہ تھا۔ وہ خاموش چل رہی تھی ۔اور میں بھی اسکے ساتھ ساتھ قدم بڑھا رہا تھا۔  "وہ دراصل ندرت جھے تم سے سوری کرنی ہے "۔ میں نے ہی بات شروع کی۔  "معافی لیکن کس بات کی۔ اسکی آنکھوں میں حیرانی در آئ ۔ صاف شفاف رنگ بھیگ

رم جھم بارش ۔۔۔۔آٹھویں قسط

 رم جھم بارش ۔۔۔۔آٹھویں قسط گھر پہنچ کر میں اپنے بیگ پیک کرنے میں لگ گیا تھا ۔ندرت مجھے حیرانی سے دیکھ رہی تھی ۔جبکہ میں  بیگ میں کپڑے ڈالنے میں  مصروف تھا ۔ "آپ کہاں جا رہے ہیں "۔ ۔ ندرت نے بلآخر خاموشی توڑی۔  مجھے ہنسی آگئ ۔وہ ایسا پتھر تھی جسے جونک جلدی نہیں لگتی۔  "میں دراصل ایک ہفتہ کے لیۓ دبئ جا رہا ہوں ۔کمپنی کی طرف سے ۔چار دن میٹنگ کے اور دو دن آنے جانے میں لگیں گے ۔اب دو گھنٹے میں فلائٹ ہے میری۔ دیر نہیں کر سکتا ۔" میرا بیگ پیک ہو گیا تھا ۔ کپڑے بھی میں نے تبدیل کر لیۓ تھے ۔‌ "ماموں کو بابا کو بتانا بھول گیا ہوں ۔بعد میں بتادیں ۔" میں نے بیگ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔  "اوکے ۔خدا حافظ" ۔ میں نے اسے نہیں دیکھا مگر محسوس کر سکتا تھا وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔  دبئ کی فلائٹ وقت پر آگئ تھی ۔ میں نے اپنا لگیج کلیر کر لیا تھا اور اب اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔مجھے رہ رہ کر وہ یاد آرہی تھی ۔ اسکے بال بہت ملایم تھے اور ان سے خوشبو پھوٹ رہی تھی۔ جو میرے دل دماغ میں رچ گئ تھی ۔  "تو اب کب تک فصیح" ۔میں اپنے آپ سے سوال کر رہا تھا ۔ وہ بہت ضدی ہے ۔

رم جھم بارش ۔۔۔ساتویں قسط

 وہ مجھے کمرے میں چھوڑ کر خود نیچے چلی گئ تھی ۔ میں کمرے کے بیچوں بیچ کھڑا پورے کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔  کمرے کو بہت خوبصورتی اور نفاست سے سجایا گیا تھا ۔لائٹ کلر کے پردے  کمرے کو بہت بر سکون بنا رہے تھے ۔کمرے   کے ایک کونہ میں خوبصورت منی پلانٹ رکھا تھا ۔ جبکہ کھڑکی سے لگا کر ایک چھوٹا موتیا کا گملا تھا ۔جس میں موتیا کے پھول مہک رہے تھے بلکہ سارا کمرا ہی مہک رہا تھا ۔ کنگ سائز بیڈ پر خوبصورت سی کڑھائ والی بیڈ شیٹ ڈالی تھی ۔ جسکے پھول قدرتی سے لگ رہے تھے ۔ ہ"مم ۔خوبصورت ۔بلکہ حیرت انگیز ۔۔۔"میں بڑ بڑایا . "کیا یہ سب مامی نے کیا ہو گا "۔ میں سوچ میں پڑ گیا ۔ "نہیں" میں نے خود ہی رد کردیا ۔ "یا ماموں ۔ لیکن ماموں کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ یہ سب کرتے پھریں" ۔ میں اپنے آپ میں ہی سوال جواب کر رہا تھا ۔ "تو کیا ندرت ۔۔۔"مجھے خود ہی حیرانی ہو ئ اور یقین بھی کہ یہ سب اس نے ہی کیا ہو گا ۔کیونکہ مامی قدیم طرز کی زندگی گذارنے کی عادی تھیں ۔ وہ آج کل کے نت نۓ فیشن ،سجاوٹ کے فن سے تقریباً نا بلد تھیں ۔  "واہ ۔کمال کا ذوق پایا ہے" ۔ میں نے

رم جھم بارش ۔۔۔۔۔۔

 رمجھم بارش  شادی میں آۓ تمام مہمانوں کو رخصت کرتے کرتے ایک بج گۓ ۔اور ہم سب بے حد تھک گۓ تھے۔ دلہن  یعنی ندرت کو کمرہ میں پہنچا یا گیا تھا ۔میں ہال میں اپنے کزنز کے ساتھ تھا ۔وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔گاہے بگاہے وہ مجھے بھی اپنے مذاق  میں گھسیٹ لیتے ۔   "۔اب کل سے آپ سب فصیح بھائ سے ماموں نامہ یا پھر ندرت نامہ سنیں گے ۔"یہ میرا خالہ ذاد بھائ نعمان تھا ۔  سب قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔  میں کب خاموش رہتا ۔  "جی نہیں ۔ اب کل سے آپ محترمہ ندرت سے شوہر نامہ سنیں گے" ۔ میری بات پر تو اور ہی قہقہہ پڑا ۔ "اچھا ۔چلو دیکھتے ہیں ۔ اب آپ محترمہ ندرت کو دیکھ لیں ۔ہم بھی آرام کرلیتے ہیں" ۔ بابا کو دیکھ کر وہ سب شرافت کے جون میں آتے اٹھ گۓ تھے اور میں بھی⁦⁩ مسکراتا اپنے کمرہ میں آگیا ۔وہاں ایک قیامت کا سامنا جو کرنا تھا ۔ میرا خیال تھا وہ شرمای لجائ بیٹھی ہو گی ۔ مجھے گھونگٹ میں چھپی اپنی دلہن کو دیکھنا ہو گا ۔ مگر نہیں ۔ وہ سر اونچا کیے بیٹھی تھی ۔ سرخ اور سنہری رنگ کے دوپٹہ سر پر پڑا تھا ۔سفید رنگت ،خمدار پلکیں اور سارے چہرے کو ایک شان دیتی۔ وہ ستواں ناک ۔ میں ایک ل

رم جھم بارش ۔۔۔۔۔ پانچویں قسط

 رم جھم بارش ۔۔۔ میری ندرت سے بات طۓ ہو گئ ۔اور شادی دو سال بعد ۔منگنی وغیرہ کا میں قائل نا تھا اور نا ہی دھوم دھڑاکا کرنا تھا ۔ "میں سادگی سے نکاح کروں گا ۔"  میں نے کہہ دیا تھا ۔  "نکاح سادگی ہی سے ہوگا لیکن ماموں کی ایک شرط ہے" ۔ بابا نے اس دن بیٹھک میں کہا ۔  "شرط ۔کیسی شرط" ۔میں چونک گیا ۔ "وہ" ۔بابا رکے ۔  "چونکہ انہیں کوئ اولاد نرینہ نہیں ہے تو وہ تمہیں اپنا گھر داماد بنانا چاہ رہے ہیں ۔" ہچکچاتے ہوۓ انہوں نے اپنی بات مکمل کی تھی۔  "کیا ۔گھر داماد ۔" میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئ ۔  "گھر داماد یا گھر کا کتا" ۔مجھے شدید غصہ آیا ۔  "میں گھر داماد نہیں بن سکتا ۔  مجھے یہ شادی ہی نہیں کرنی" ۔میں جیسے انتظار میں تھا ندرت سے منگنی توڑنے کے لئے۔  "مذاق سمجھ رکھا ہے" ۔بابا مجھ پر پہلی بار چلاۓ۔  "مصلحت بھی کوئ چیز ہو تی ہے ۔ تمہارے ماموں کی عمر ہو رہی ہے مامی بلڈ پریشر کی مریضہ ہیں ۔ خدانخواستہ کچھ ایمیرجنسی ہو تو گھر میں کوئ مرد ہی موجود نہیں ۔ اس لیۓ تمہارے ماموں نے بڑی عاجزی سے مجھ سے کہا کہ

رم جھم گرے ساون چوتھی قسط

 رم جھم‌گرے ساون  چوتھی قسط  میری یہ بات سن کر ماموں ایک لمحہ خاموش ہو گۓ تھے ۔  آگے کیا ارادہ ہے ۔ گورنمنٹ جاب کے لیۓ ٹرآئ کروگے۔ یا‌۔۔۔ "انہوں نے بات ادھوری چھوڑی ۔  نہیں گورنمنٹ جاب  کا ملنا لوہے کے چنے چبانا جیسا ہو گیا ہے ۔  اس لیۓ پرائوٹ میں ہی کوشش کروں گا ۔ ہمممم ۔ویسے بھی ہر کسی کو نہیں ملتی گورنمنٹ جاب ۔۔۔ان‌لہجہ کچھ فخریہ سا تھا۔ لیکن مجھے گورنمنٹ جاب پسند بھی نہیں ۔سرکاری ملازمتوں کا مسلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ حلال رزق کم ہو تا ہے اور حرام وافر مقدار میں مل جاتا ہے ۔اور مجھے حرام رزق نہیں حلال رزق ہی چاہیۓ ۔میں نے مضبوطی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا لیکن ۔۔۔۔۔ماموں نے اس بات کو ذاتی چملہ سمجھا‌۔ان کا چہرہ سرخ ہوا۔  "تم جو روٹی کا لقمہ لے رہے ہو ۔وہ حق حلال کی کمائ کا ہے ۔میرا کردار بے داغ اور نوکری شفاف ہے ۔اس میں کوی دو راۓ نہیں ۔  آپ کو شاید غلط فہمی ہوئ میں نے آپ کو یا آپکی نوکری کو کچھ نہیں کہا بس ایک عام سی بات تھی ۔مجھے حقیقتاً انکے سامنے شرمندگی محسوس ہوئ تھی ۔  وہ چپ رہے ۔  یہ ۔۔۔میں نے ایک روٹی کا نوالہ توڑا تھا ۔ اگر حرام ہوتا تو میں ہر گز اس کو نا توڑتا ۔  میری

ساحل کے کنارے ۔۔۔

ساحل کے کنارے ۔۔۔۔۔عائشہ نے لکھی اپنی کہانی  رک جاؤ عائشہ ۔کہاں ہو تم ۔ کچھ مت کرنا ۔دیکھو ۔ہم بات کر رہے ہیں ناں ۔رک جاؤ کہاں ہو ۔فون مت رکھو ۔ عائشہ" ۔ وہ فون پکڑے اپنی پیاری بیٹی سے بات کر رہے تھے ۔  عائشہ مایوسی کے عالم میں گھر سے نکل گئ تھی ۔ اس کے شوہر کی بے وفائ سے وہ دلبرداشتہ تھی ۔  گجرات کی سابرمتی ندی کے کنارے وہ ٹہر گئ تھی ۔اور فون اٹھا لیا تھا ۔ بابا اس سے بار بار منت کر رہے تھے ۔  گھر آ جاؤ  عائشہ ۔ کہاں چلی گئ ہو تم ۔ہم سب پریشان ہیں ۔ماں رو رہی ہیں ۔بیٹے ۔ گھر آجاؤ ۔ وہ اس سے التجا کر رہے تھے۔  بابا وہ سسک پڑی ۔  نہیں آؤوں گی اب واپس ۔بابا میں نے آپ سب کو بہت پریشان کیا ۔ اب نہیں کروں گی ۔ وہ رونے لگی ۔  نہیں عایشہ ۔تم کچھ نہیں کروگی ۔ میں آرہا ہوں تمہارے پاس ۔ تم کہاں ہو وہ اسکے ارادوں سے گھبراۓ ان کا دل دھڑ دھڑ کر نے لگا ۔ایسے لگا جیسے کچھ غلط ہونے جارہا ہے ۔ میں کیا کروں بابا ۔کیا کروں میں ۔میں تھک چکی ہوں ۔اب سکون چاہتی ہوں ۔میں ہوا کی طرح آزاد رہنا چاہتی ہوں ۔ میرے لیۓ دعا کرنا ۔ وہ فون رکھ چکی تھی ۔ اس نے اپنے شوہر کو کال کیا ۔ میں مر رہی ہوں ۔  مر جاؤ۔ ویسے