گوگل اسسٹنٹ

گوگل اسسٹنٹ


"اوکے! گوگل پلیز ٹیل می دا سپیللنگز آف ۔۔۔۔۔"
وہ اپنے فون پر گوگل اسسٹنٹ لگائ بات کر رہی تھی
" ۔ہیلو 'ہیلو ' اوکے! گوگل "
"اے شبو !"تو یہاں بیٹھی کس سے بات کر رہی ہے "۔اماں نجانے کب سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ 
گاؤں کے اس پسماندہ سے علاقے کے ایک گھر میں وہ اپنا اسمارٹ فون کھولے بیٹھی تھی ۔اوور اب ٹائیپنگ سے بچنے کے لیۓ اس نے گوگل اسسٹنٹ لگا لیا تھا ۔


 ۔یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ اماں کے سامنے لگا لیا تھا۔اور ایسا لگ‌رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے والا تھا۔ 
"ارے اماں۔میں تو گوگل سے بات کر رہی تھی"
" ۔وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ یہ موا" گوگل" کون ہے ۔جس سے پٹر پٹر باتیں کر رہی ہو "۔وہ روٹی پکاتے پکاتے پکاتے اسکے سر پر پہنچ گی تھیں ۔
"ارے اماں' ہمیں اگر کچھ بھی معلوم کرنا ہو تو گوگل مدد کرتا ہے" ۔اس نے آسان لفظوں میں سمجھانا چاہا ۔
"مطلب' اسکو کام دھندہ نہیں ہے اور"...." تم کو بھی نہیں "۔"یہ تو پتا لگ رہا ہے" ۔
"اففوہ اماں' اگر ہم اس سے کچھ بھی پوچھیں تو وہ بتادے گا۔ "
"کیوں؟ وہ تمہارا نو کر لگا ہوا کہ تم کہیں کی امیرذادی کہ وہ تمہارے سوالات کے جوابات دینے کے لیۓ بیٹھا ہے"۔ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ 
"اماں اسے گوگل اسسٹنٹ کہتے ہیں "۔وہ جھلائ 
"اسسٹنٹ تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے خود کہیں کی ڈپٹی لگی ہو۔ اسسٹنٹ لگایا ہوا ہے اسسٹنٹ۔ ہونہہہ۔۔۔۔"
" آنے دو' تیرے ابا کو"
"اماں اگر آپ کو کچھ بھی پوچھنا ہو تو آپ بھی پوچھ سکتی ہو اس سے "۔
"اے خدا نا کرے 'اس سے کیوں پوچھوں ۔جو بھی پوچھنا ہوا تیرے ابا سے پوچھوں گی۔"وہ بڑی معصومیت سے کہہ اٹھیں.
"تو ابا کو کونسا معلوم ہوتی ہے ہر چیز ۔سوال گندم تو جواب چنا تو کرتے ہیں وہ" ۔وہ بے زارگی سے بولی تو اماں کا دماغ غصہ کی  ساتویں منزل  پر پہنچا۔
"گندم کو چنا کریں کہ جو ۔تیرے ابا ہیں پورے گاؤں میں ایک وہی تو تیسرری جماعت تک پڑھے تھے۔"
"میرے ابا نے تو صرف پڑھائ دیکھی تھی کہ تیسری پاس ہے افسر لگےگا افسر ۔" اماں بولیں ۔"اور شادی کر دی ۔۔۔"
"کبھی کبھی سوچتی ہوں اگر ابا صورت شکل بھی ذرا دیکھ لیتے تو کتنا اچھا ہو تا"۔
"اس سے کیا ہو تا ۔اماں "
"اس سے کم سے کم تیری شکل تو اچھی ہو تی ۔پوری باپ پر گئ ہے "۔انکا گیا ہوا غصہ واپس لوٹ آیا۔
"چوہیا جیسی" ۔وہ چڑ کر بولیں۔
"خاندان والے تو کہتے ہیں بالکل آپ پر گئ ہوں" ۔وہ بھی سلگ کر بولی۔
"ایک گھنٹہ سے دیکھ رہی ہوں ۔اس سے گٹ پٹ کیۓ جارہی ہے ۔بھلا مردوں سے کون پٹر پٹر بات کرتا ہے" ۔انہوں نے اچانک پٹری  بدلی ۔
"بالکل گھاگھ سیاست دانوں کی طرح بات بدلی ہو" ۔اس نے منہ بنایا ۔
" ٹھیک ہے ۔اب سیری سے بات کر لوں گی. اب تو خوش ۔"اس نے اپنی دانست میں انہیں خوش کرنا چاہا
"ہایئں ۔اب سری پاۓ بھی بات کرنے لگے "۔انکا حیرانی سے منہ کھلا رہ گیا ۔
"اف اما ں"" آپ بھی ۔وہ سیری ہےسیری ۔ مطلب ایک لڑکی ہے وہ "۔
"بالکل تمہاری طرح بے ڈھنگی ہو گی ۔کام وام تو کچھ نا آتا ہو گا اسے۔ہے ناں "۔
"اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ۔وہ تو ۔۔۔۔"۔وہ ابھی بات مکمل بھی نا کر پائ کہ اماں نے بات بیچ میں ہی کاٹی۔
"ہاں ہاں کہہ دو 'وہ کہیں کی شاہزادی ہے ۔دس خادم تو اسکے آگے پیچھے پھرتے ہیں ۔اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ۔واہ بھی واہ ۔کام نہیں کرتی ہو گی تو کیا مفت کے نوالے توڑتی ہو گی"۔ انہوں نے جلے جلے انداز میں کہا۔ شبو کی جو بات کٹ گی تھی وہ ابھی تک اسے لیۓ بیٹھی تھی۔۔
اف اب میں کیا کہوں ۔
"لو تمہارے ابا آگۓ ۔وہی سنبھالیں گے اب تمہیں "۔وہ دروازہ کی جانب لپکیں ۔
"کیا ہوا 'شور کیوں مچارہی تھیں ۔ باہر تک آواز آرہی تھی "۔
"شبو کے ابا ۔آپ نے اسے فون‌لا کر دیا۔ اب وہ کسی گوگل کے ساتھ گٹ پٹ انگریزی میں بات کر رہی تھی" ۔اماں‌نے دھیمی آواز میں دھماکہ دار خبر دی ۔
"کیا" ۔وہ دو فٹ بیڈ سے اچھلے۔
"ہاں ۔کوی چکر چل رہا ہے۔۔وہ پھر انہیں بیڈ پر دو فٹ دھنساکر بو لیں ۔
"اور تو اور ایک سیری بھی ہے جو اسے بھٹکا رہی ہے" ۔ وہ بڑے رازدارانہ انداز میں بولیں۔
"اچھا ایسا کرو ۔دروازہ کھڑکیاں  سب لگادو ۔اسے باہر نا جانے دو ۔اور اس فون کو بھی لے لو ۔کیا پتا فون‌کب کیا کرے ۔"
"اچھا شبو کے ابا" ۔
"اور اس کا دھیان رکھو ۔کہیں اس کے ساتھ بھاگ ہی نا جاۓ" ۔ابا بولے۔
"کسکے ساتھ شبو کے ابا" ۔
"وہی ۔آج کل کا آوارہ ،لفنگا لڑکا ،گوگل ۔کے ساتھ ۔بہت سن رہا ہوں اسکے بارے میں" ۔وہ سنجیدگی سے بولے ۔
اندر کمرہ میں قید شبو ،گوگل اسسٹنٹ سے بات کرنے کا خمیازہ بھگت رہی تھی۔
********



 ۔گوگل اسسٹنٹ
آخر دو گھنے کی سزاۓ کالا پانی کے بعد شبو اپنی اماں کو سمجھا سکی کہ گوگل اسسٹنٹ اور گوگل انسان نہیں ہیں ۔گوگل محلہ کا لچا لفنگا لڑکا نہیں بس ساری دنیا کا انکل ہے۔یہ سب سن کر اماں کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"تو یہ سب کا چاچے بناکیوں پھرتا ہے ۔"وہ شبو کے کمرہ میں بیٹھ گئیں۔
"اماں !بس یوں سمجھو اگر آپ کو کوئ بھی مسئلہ پوچھنا ہو تو آپ گوگل اسسٹنٹ سے پوچھ سکتی ہو"۔
"اچھا "۔وہ سوچنے لگیں ۔
"کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں "......"۔اچھا! اس سے یہ تو پوچھ پڑوس کی رشیداں کی بکری کیسے مری "۔اماں کا سوال سن‌کر شبو کو تو جیسے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔
"اماں !۔آپ بھی ناں ۔میں آپ کو سمجھا کچھ رہی ہوں اور آپ سمجھ کچھ رہی ہیں" ۔ 
"ارے ۔تو نے ہی تو کہا کہ کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں" ۔"اچھا تو پھر" ۔وہ پھر سوچنے لگیں۔
"آپ بیماری وغیرہ کا پوچھ سکتی ہو "۔اس نے اپنی طرف سے مدد دی۔
"اچھا !۔تو یہ پوچھ ,کہ میرے کمر کا درد کب جائیگا۔ہاۓ سالوں‌ اس درد سے پریشان ہوں "۔ہاۓ !میری کمر. ہاۓ! میری کمر‌ ۔۔ " 
"اففوہ یہ سب نہیں بتاۓگا وہ ۔اسنے یہ سب بتانا شروع کیا تو لوگ عامل گوگل بابا پکارنا شروع کر دینگے۔
"حد ہے آپ سے بھی."
"آپ گانا سن لو" اس نے مائک لگایا۔
"اوکے گوگل ۔۔۔۔۔۔۔کین یو سنگ آ سانگ ۔۔۔۔۔۔"
گوگل اسسٹنٹ گانے لگی۔"آی ایم.. یوور گوگل اسسٹنٹ ....پم پم پا۔۔۔۔۔ "
"یہ کیسا بے سرا گارہی ہے۔نا باجا نا راگ ۔اماں ناگواری سے بو لیں ۔اس سے تو اچھا میں گا لیتی ہوں ۔اماں کہتی ہوئیں گانا بھی گانے لگیں۔
"میں تیری دشمن تو میرا دشمن
 میں ناگن تو سپیراااااا
میں ناگن تو سپیراااااا
"ارے اماں! بسسسسسس ۔آپکے گانے سن کر تو گاؤں کے سارے سانپ اور سپیرے بھی آجاییں گے۔اس نے اماں کو جلدی سے روکا۔
"اے شرم نہیں آتی اپنے ابا کو سپیرا بولتے" ۔اماں نے اسے ڈانٹا۔
"میں انہیں سپیرا نہیں آپ کو ناگن کہہ رہی ہوں" ‌۔ وہ جل کر بولی۔ وہ اس رو میں اسپیکر پھر آن کر بیٹھی۔
"اس طرح کہے گی تو مجھے گالیاں آئیں گی گالیاں" ۔
اسسٹنٹ نے گالیاں کو گلیاں سمجھا اور گلیاں گلیاں کرنے لگی۔
"ارے! اسکو تو چپ کروادے۔ بے غیرت! گلیاں گلیاں کر رہی ۔نجانے کسکی گلی میں جا گھسی"۔
" شٹ اپ" ۔شبو نے اسے جھڑکا۔ اسسٹنٹ کو بھئ ۔

"اوکے"۔ وہ بڑی تابعداری سے خاموش ہو گئ۔
کتنی بے شرم ہے ۔  گالیاں کھا کر "اوکے "کہتی ہے ۔لگتا ہے تیری صحبت کا اثر ہے ۔
"بس کر اماں" ۔ شبو بیزاری سے بولی۔
"کیا گالیوں کی طرح کھانا بھی کھاتی ہے ۔یہ"
"اماں" وہ بے بس ہوگئ۔
"اچھا !اکیلی ہی ہے بہن‌بھائ نہیں ہیں اسکے" ۔
"وہ مشین ہے اماں ۔وہ ہم جیسے احساسات نہیں رکھتی ۔بے حس ہوتی ہے "۔
"بے حس تو ہم ہیں ناں رے شبو ۔اگر کوئ مرتا ہے تو ہمیں اسکے دکھ کا احساس بھی نہیں ہو تا۔ کوئ بھوکا ہے تو اسکی بھوک کا بھی احساس نہیں کرتے۔ کوئ روتا ہے تو ہم ہنستے ہیں کوئ گرتا ہے تو ہم اسے اور گرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسے اٹھتا ہوا دیکھ کر اور ہنستے ہیں ۔بے حس تو ہم ہوۓ نا شبو ۔ مشین وہ ہے کہ ہم ۔"اماں کسی گہری سوچ میں بولے چلی گئیں۔
"شبو کی اماں ۔اب بس کر بس ۔ذرا فلمیں کم دیکھا کر ۔رات جو فلم دیکھی تھی ۔اس کا اثر ہے ۔یہ تو  نہیں اس فلم کے ڈایلاگ ہیں ۔جو تو مار  رہی ہے۔۔
اس سے پہلے کہ شبو اماں کے جذبات سے متاثر ہو تی ۔ابا نے دھماکہ آمیز انٹری دی۔
اماں ابا کو دیکھتے ہی کھسیانی ہو گئیں۔اور" تیرے اپا کے لئے چاۓ بنا تی ہوں" کہتی باورچی خانہ کی جانب بھاگیں
"ابا! آپ کو بھی کچھ پوچھنا ہے کیا" ۔ شبو نے ابا کو بھی گوگل اسسٹنٹ سے بات کر نے کی پیشکش کی۔
"مجھے تو ایک ہی بات پوچھنا ہے بس" ۔ابا آرام سے اسکے برابر بیٹھتے ہو ۓ بولے۔
"کیا ابا"
"یہی کہ تیری اماں سے چھٹکارا کب ملے گا۔بتادیگی وہ ۔"
"کیا !!!"ابا آ پ بھی ناں" شبو  ہنسنے لگی۔اس کا تو ایک ہی جواب ہو گا ۔
"کیا"
" نو وے "
ابا کو ابھی اسکا مطلب نہیں پتا تھا اس لیۓ وہ خاموش ہو گۓ اور ۔ شبو انکے پاس سے ہنستے ہو ۓ اٹھی تھی۔






 ۔

تبصرے

  1. بہت خوبصورت لکھا آپنے ،بہت ہنسی آی اور آخر میں امّاں نے بہت اچھا کہا ہم سب مشین ہیں۔اللّه آپکے قلم میں اور برکت دے۔آمین ۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رس گلہ کا گھپلا

دیا اور روشنی