او کے گوگل


"اوکے! گوگل پلیز ٹیل می دا سپیللنگز آف ۔۔۔۔۔"
وہ اپنے فون پر گوگل اسسٹنٹ لگائ بات کر رہی تھی
" ۔ہیلو 'ہیلو ' اوکے! گوگل "
"اے شبو !"تو یہاں بیٹھی کس سے بات کر رہی ہے "۔اماں نجانے کب سے اسے دیکھ رہی تھیں ۔یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ اماں کے سامنے فون لیۓ گوگل اسسٹنٹ لگا لیا تھا۔ابھی کچھ دیر بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے والا تھا۔ 
"ارے اماں۔میں تو گوگل سے بات کر رہی تھی"
" ۔وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ یہ موا" گوگل" کون ہے ۔جس سے پٹر پٹر باتیں کر رہی ہو "۔وہ روٹی پکاتے پکاتے پکاتے اسکے سر پر پہنچ گی تھیں ۔
"ارے اماں' ہمیں اگر کچھ بھی معلوم کرنا ہو تو گوگل مدد کرتا ہے" ۔اس نے آسان لفظوں میں سمجھانا چاہا ۔
"مطلب' اسکو کام دھندہ نہیں ہے اور"...." تم کو بھی نہیں "۔"یہ تو پتا لگ رہا ہے" ۔
"اففوہ اماں' اگر ہم اس سے کچھ بھی پوچھیں تو وہ بتادے گا۔ "
"کیوں؟ وہ تمہارا نو کر لگا ہوا کہ تم کہیں کی امیرذادی کہ وہ تمہارے سوالات کے جوابات دینے کے لیۓ بیٹھا ہے"۔ان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ 
"اماں اسے گوگل اسسٹنٹ کہتے ہیں "۔وہ جھلائ 
"اسسٹنٹ تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے خود کہیں کی ڈپٹی لگی ہو۔ اسسٹنٹ لگایا ہوا ہے اسسٹنٹ۔ ہونہہہ۔۔۔۔"
" آنے دو' تیرے ابا کو"
"اماں اگر آپ کو کچھ بھی پوچھنا ہو تو آپ بھی پوچھ سکتی ہو اس سے "۔
"اے خدا نا کرے 'اس سے کیوں پوچھوں ۔جو بھی پوچھنا ہوا تیرے ابا سے پوچھوں گی۔"وہ بڑی معصومیت سے کہہ اٹھیں.
"تو ابا کو کونسا معلوم ہوتی ہے ہر چیز ۔سوال گندم تو جواب چنا تو کرتے ہیں وہ" ۔وہ بے زارگی سے بولی تو اماں کا دماغ غصہ کی  ساتویں منزل  پر پہنچا۔
"گندم کو چنا کریں کہ جو ۔تیرے ابا ہیں پورے گاؤں میں ایک وہی تو تیسرری جماعت تک پڑھے تھے۔"
"میرے ابا نے تو صرف پڑھائ دیکھی تھی کہ تیسری پاس ہے افسر لگےگا افسر ۔" اماں بولیں ۔"اور شادی کر دی ۔۔۔"
"کبھی کبھی سوچتی ہوں اگر ابا صورت شکل بھی ذرا دیکھ لیتے تو کتنا اچھا ہو تا"۔
"اس سے کیا ہو تا ۔اماں "
"اس سے کم سے کم تیری شکل تو اچھی ہو تی ۔پوری باپ پر گئ ہے "۔انکا گیا ہوا غصہ واپس لوٹ آیا۔
"چوہیا جیسی" ۔وہ چڑ کر بولیں۔
"خاندان والے تو کہتے ہیں بالکل آپ پر گئ ہوں" ۔وہ بھی سلگ کر بولی۔
"ایک گھنٹہ سے دیکھ رہی ہوں ۔اس سے گٹ پٹ کیۓ جارہی ہے ۔بھلا مردوں سے کون پٹر پٹر بات کرتا ہے" ۔انہوں نے اچانک پٹری  بدلی ۔
"بالکل گھاگھ سیاست دانوں کی طرح بات بدلی ہو" ۔اس نے منہ بنایا ۔
" ٹھیک ہے ۔اب سیری سے بات کر لوں گی. اب تو خوش ۔"اس نے اپنی دانست میں انہیں خوش کرنا چاہا
"ہایئں ۔اب سری پاۓ بھی بات کرنے لگے "۔انکا حیرانی سے منہ کھلا رہ گیا ۔
"اف اما ں"" آپ بھی ۔وہ سیری ہےسیری ۔ مطلب ایک لڑکی ہے وہ "۔
"بالکل تمہاری طرح بے ڈھنگی ہو گی ۔کام وام تو کچھ نا آتا ہو گا اسے۔ہے ناں "۔
"اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ۔وہ تو ۔۔۔۔"۔وہ ابھی بات مکمل بھی نا کر پائ کہ اماں نے بات بیچ میں ہی کاٹی۔
"ہاں ہاں کہہ دو 'وہ کہیں کی شاہزادی ہے ۔دس خادم تو اسکے آگے پیچھے پھرتے ہیں ۔اسے کام کرنے کی کیا ضرورت ۔واہ بھی واہ ۔کام نہیں کرتی ہو گی تو کیا مفت کے نوالے توڑتی ہو گی"۔ انہوں نے جلے جلے انداز میں کہا۔ شبو کی جو بات کٹ گی تھی وہ ابھی تک اسے لیۓ بیٹھی تھی۔۔
اف اب میں کیا کہوں ۔
"لو تمہارے ابا آگۓ ۔وہی سنبھالیں گے اب تمہیں "۔وہ دروازہ کی جانب لپکیں ۔
"کیا ہوا 'شور کیوں مچارہی تھیں ۔ باہر تک آواز آرہی تھی "۔
"شبو کے ابا ۔آپ نے اسے فون‌لا کر دیا۔ اب وہ کسی گوگل کے ساتھ گٹ پٹ انگریزی میں بات کر رہی تھی" ۔اماں‌نے دھیمی آواز میں دھماکہ دار خبر دی ۔
"کیا" ۔وہ دو فٹ بیڈ سے اچھلے۔
"ہاں ۔کوی چکر چل رہا ہے۔۔وہ پھر انہیں بیڈ پر دو فٹ دھنساکر بو لیں ۔
"اور تو اور ایک سیری بھی ہے جو اسے بھٹکا رہی ہے" ۔ وہ بڑے رازدارانہ انداز میں بولیں۔
"اچھا ایسا کرو ۔دروازہ کھڑکیاں  سب لگادو ۔اسے باہر نا جانے دو ۔اور اس فون کو بھی لے لو ۔کیا پتا فون‌کب کیا کرے ۔"
"اچھا شبو کے ابا" ۔
"اور اس کا دھیان رکھو ۔کہیں اس کے ساتھ بھاگ ہی نا جاۓ" ۔ابا بولے۔
"کسکے ساتھ شبو کے ابا" ۔
"وہی ۔آج کل کا آوارہ ،لفنگا لڑکا ،گوگل ۔کے ساتھ ۔بہت سن رہا ہوں اسکے بارے میں" ۔وہ سنجیدگی سے بولے ۔
اندر کمرہ میں قید شبو ،گوگل اسسٹنٹ سے بات کرنے کا خمیازہ بھگت رہی تھی۔


*********
آخر دو گھنے کی سزاۓ کالا پانی کے بعد شبو اپنی اماں کو سمجھا سکی کہ گوگل اسسٹنٹ اور گوگل انسان نہیں ہیں ۔گوگل محلہ کا لچا لفنگا لڑکا نہیں بس ساری دنیا کا انکل ہے۔یہ سب سن کر اماں کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"تو یہ سب کا چاچے بناکیوں پھرتا ہے ۔"وہ شبو کے کمرہ میں بیٹھ گئیں۔
"اماں !بس یوں سمجھو اگر آپ کو کوئ بھی مسئلہ پوچھنا ہو تو آپ گوگل اسسٹنٹ سے پوچھ سکتی ہو"۔
"اچھا "۔وہ سوچنے لگیں ۔
"کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں "......"۔اچھا! اس سے یہ تو پوچھ پڑوس کی رشیداں کی بکری کیسے مری "۔اماں کا سوال سن‌کر شبو کو تو جیسے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔
"اماں !۔آپ بھی ناں ۔میں آپ کو سمجھا کچھ رہی ہوں اور آپ سمجھ کچھ رہی ہیں" ۔ 
"ارے ۔تو نے ہی تو کہا کہ کچھ بھی پوچھ سکتی ہوں" ۔"اچھا تو پھر" ۔وہ پھر سوچنے لگیں۔
"آپ بیماری وغیرہ کا پوچھ سکتی ہو "۔اس نے اپنی طرف سے مدد دی۔
"اچھا !۔تو یہ پوچھ ,کہ میرے کمر کا درد کب جائیگا۔ہاۓ سالوں‌ اس درد سے پریشان ہوں "۔ہاۓ !میری کمر. ہاۓ! میری کمر‌ ۔۔ " 
"اففوہ یہ سب نہیں بتاۓگا وہ ۔اسنے یہ سب بتانا شروع کیا تو لوگ عامل گوگل بابا پکارنا شروع کر دینگے۔
"حد ہے آپ سے بھی."
"آپ گانا سن لو" اس نے مائک لگایا۔
"اوکے گوگل ۔۔۔۔۔۔۔کین یو سنگ آ سانگ ۔۔۔۔۔۔"
گوگل اسسٹنٹ گانے لگی۔"آی ایم.. یوور گوگل اسسٹنٹ ....پم پم پا۔۔۔۔۔ "
"یہ کیسا بے سرا گارہی ہے۔نا باجا نا راگ ۔اماں ناگواری سے بو لیں ۔اس سے تو اچھا میں گا لیتی ہوں ۔اماں کہتی ہوئیں گانا بھی گانے لگیں۔
"میں تیری دشمن تو میرا دشمن
 میں ناگن تو سپیراااااا
میں ناگن تو سپیراااااا
"ارے اماں! بسسسسسس ۔آپکے گانے سن کر تو گاؤں کے سارے سانپ اور سپیرے بھی آجاییں گے۔اس نے اماں کو جلدی سے روکا۔
"اے شرم نہیں آتی اپنے ابا کو سپیرا بولتے" ۔اماں نے اسے ڈانٹا۔
"میں انہیں سپیرا نہیں آپ کو ناگن کہہ رہی ہوں" ‌۔ وہ جل کر بولی۔ وہ اس رو میں اسپیکر پھر آن کر بیٹھی۔
"اس طرح کہے گی تو مجھے گالیاں آئیں گی گالیاں" ۔
اسسٹنٹ نے گالیاں کو گلیاں سمجھا اور گلیاں گلیاں کرنے لگی۔
"ارے! اسکو تو چپ کروادے۔ بے غیرت! گلیاں گلیاں کر رہی ۔نجانے کسکی گلی میں جا گھسی"۔
" شٹ اپ" ۔شبو نے اسے جھڑکا۔ اسسٹنٹ کو بھئ ۔

"اوکے"۔ وہ بڑی تابعداری سے خاموش ہو گئ۔
کتنی بے شرم ہے ۔  گالیاں کھا کر "اوکے "کہتی ہے ۔لگتا ہے تیری صحبت کا اثر ہے ۔
"بس کر اماں" ۔ شبو بیزاری سے بولی۔
"کیا گالیوں کی طرح کھانا بھی کھاتی ہے ۔یہ"
"اماں" وہ بے بس ہوگئ۔
"اچھا !اکیلی ہی ہے بہن‌بھائ نہیں ہیں اسکے" ۔
"وہ مشین ہے اماں ۔وہ ہم جیسے احساسات نہیں رکھتی ۔بے حس ہوتی ہے "۔
"بے حس تو ہم ہیں ناں رے شبو ۔اگر کوئ مرتا ہے تو ہمیں اسکے دکھ کا احساس بھی نہیں ہو تا۔ کوئ بھوکا ہے تو اسکی بھوک کا بھی احساس نہیں کرتے۔ کوئ روتا ہے تو ہم ہنستے ہیں کوئ گرتا ہے تو ہم اسے اور گرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسے اٹھتا ہوا دیکھ کر اور ہنستے ہیں ۔بے حس تو ہم ہوۓ نا شبو ۔ مشین وہ ہے کہ ہم ۔"اماں کسی گہری سوچ میں بولے چلی گئیں۔
"شبو کی اماں ۔اب بس کر بس ۔ذرا فلمیں کم دیکھا کر ۔رات جو فلم دیکھی تھی ۔اس کا اثر ہے ۔یہ تو  نہیں اس فلم کے ڈایلاگ ہیں ۔جو تو مار  رہی ہے۔۔
اس سے پہلے کہ شبو اماں کے جذبات سے متاثر ہو تی ۔ابا نے دھماکہ آمیز انٹری دی۔
اماں ابا کو دیکھتے ہی کھسیانی ہو گئیں۔اور" تیرے اپا کے لئے چاۓ بنا تی ہوں" کہتی باورچی خانہ کی جانب بھاگیں ۔
"ابا! آپ کو بھی کچھ پوچھنا ہے کیا" ۔ شبو نے ابا کو بھی گوگل اسسٹنٹ سے بات کر نے کی پیشکش کی۔
"مجھے تو ایک ہی بات پوچھنا ہے بس" ۔ابا آرام سے اسکے برابر بیٹھتے ہو ۓ بولے۔
"کیا ابا"
"یہی کہ تیری اماں سے چھٹکارا کب ملے گا۔بتادیگی وہ ۔"
"کیا !!!"ابا آ پ بھی ناں" شبو  ہنسنے لگی۔اس کا تو ایک ہی جواب ہو گا ۔
"کیا"
"نو وے"
ابا کو ابھی اسکا مطلب نہیں پتا۔ شبو انکے پاس سے ہنستے ہو ۓ اٹھی تھی۔

دراصل شبو اور انکی فیملی ایک گاؤں میں آباد تھی ۔یہاں ابھی سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنے قدم نہیں جماۓ تھے ۔ بہت سے لوگ اسمارٹ فون سے انجان تھے ۔ اور جن کے پاس تھے وہ بھی اسے صرف کال ملانے اور سننے کی حد تک استعمال کر رہے تھے ۔ پورے گاؤں میں بمشکل آٹھ دس لوگوں کے پاس اسمارٹ مو بائیل تھا ۔ باقی لوگ بیسک ماڈل ہی استعمال کرتے تھے۔
اب شبو کا چھوٹا بھائ ڈگری کر کے باہر گیا تو وہاں سے دو اسمارٹ فون بھیجا تھا ایک بہن کو ایک بھاوج کو ۔ اور یوں شبو جو کالج کی اسٹوڈنٹ تھی ۔اسہکے ہاتھ بھی اسمارٹ فون آ گیا ۔ اور وہ اب اکثر ہی گوگل اسسٹنٹ لگاۓ بیٹھتی اور جس سے اس کے ابا اماں کو شدید غلط فہمی ہو ئ تھی جو کہ اب دور ہو ئ۔

*********

ہماری شبو اور گوگل اسسٹنٹ کا تو آپ نے پڑھا ۔مگر شبو کی فیملی میں صرف اماں ،ابا ہی نہیں ہیں ۔انکی فیملی نمو نوں  سے بھری پڑی ہے ۔اب اسکی بھابھی ہی کو لے لیں ۔انکا نام۔شاہانہ سا تھا جسکو ان لوگوں نے "شنو "کر فقیرانہ کر دیا۔اب آییۓ ٬شبو کے گھر چلتے ہیں۔

اماں صحن جھاڑ رہی ہیں ۔وہ جھاڑتے جھاڑتے شبو کے پاس آتی ہیں ۔

اے ،شبو ،"یہ تیرا  فون کھل نہیں رہا ۔پتا نہیں کیوں ؟"

اماں "میں نے موبائل کو تالا لگا دیا ہے ۔"شبو نے احتیاطاً تالا کہا تاکہ وہ الجھن میں نا پڑیں ۔

"ہیں !تالا "

"مگر اس میں تو نے کونسا خزانہ رکھا ہے جو تالا لگانے کی ضرورت پڑ گئ۔"اماں کی حیرت واجبی تھی۔

"وہ اماں ۔۔۔۔۔"شبو مخمصہ میں پڑ گئ۔

"اگر لاک نا کریں تو کوئ بھی آپ کا فون کھول کر دیکھ سکتا ہے ۔فوٹوز وغیرہ 'اس لیۓ لگاتے ہیں ۔"

ا"اب کالج جاتی ہوں تو کئ لڑکیاں میرا فون کھول کر گھر کے ،آپ کے فوٹوز دیکھ لیتی ہیں ۔خوامخواہ کا مذاق بنتا ہے ۔"

 وہ کونسی کہیں کی حور پری ہیں ۔برتن بگونوں جیسے تو منہ ہیں سب کے " اماں نے برا سا منہ بنایا۔

اور "اماں نے موبائل کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔

"اس میں تو کہیں تالا نظر نہیں آرہا۔کہاں لگایا تو نے تالا۔"

"اماں ۔وہ نمبرزوغیرہ کا پاس ورڈ لگاکر لاک کر دیتے ہیں ۔"شبو نے سمجھایا۔مگر اماں کو خاک جو سمجھ آیا ہو ۔مگر وہ خاموش ہو گئیں ۔

اتنے میں شنو صحن میں آ پہنچی۔

"شبو ۔ذرا میرے موبائل کو میرے چہرے کا لاک لگا کر دینا۔ "

اچھا تمہارا مطلب فیس لاک ".

ہوں "شبو نے اپنا بیل جیسا سر ہلایا۔ 

ااچھا۔ادھر دیکھو" ۔شنو نے اسکا موبائل لیا اور اسکے سامنے کیا۔

"شنو تمہاری عمر کیا ہے۔"وہ موبائل کو دیکھتی ہوئ پوچھنے لگی۔

"میں جب میٹرک میں تھی تب سولہ کی تھی۔میٹرک ہوتے ہی شادی ہی ہو گئ ناں" ۔شنو شرماتے ہوے بولی۔

 شادی ہی ہو گئ ناں" ۔شنو شرماتے ہوے بولی۔

"تو میٹرک پاس ہو تے ہوتے جو چار سال لگ گۓ اسکا کیا۔"شبو جل کر بولی تو شنو کھسیا گئ۔

"اچھا اب یہ موبائل کتنی عمر بتا رہا ہے میری"۔ 

"بیالیس" ۔شبو سنجیدگی سے بولی ۔

ہاۓ اللہ ! لیکن میری عمر تو ۔۔۔۔"وہ چلا پڑی۔

"جس طرح تم نے حلیہ بنایا ہے وہ یہی بتاۓگا۔"

"تو رک میں ابھی آتی ہوں" ۔وہ لپک کر اپنے کمرہ کی جانب بھاگی۔کچھ دیر بعد آئ تو ۔۔۔۔۔

"اے شنو !تو یوں ہولی کا میدان بن کر کیوں آگئ۔"اماں کی اس پر نظر پڑی تو وہ چپ نا رہیں۔آنکھوں میں ڈھیر سارا کاجل ،ہونٹوں پر سرخ لپسٹک ،جبکہ گال گہرے گلابی رنگ میں ڈوبے ہوے لگ رہے تھے ۔آنکھوں کو پرپل کلر کے شیڈز لگا کر وہ دبتے ہوے رنگ کے ساتھ کچھ کیا بہت عجیب لگ رہی تھی۔


میں کیسی لگ رہی ہوں" ۔وہ اٹھلائ۔

"عجیب و غریب" ۔اماں نے بھر پور آواز میں کہا۔ 

"شبو ۔اب اب کیا عمر بتا رہا ہے ۔"

"باون "اب شبو بےچارگی سے بولی ۔

"جانے دے ۔وہ جو بھی بتاۓ۔کونسا مجھے اسکے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے"۔شنو چڑ کر بولی۔

"بس تو وہ فیس لاک کر دے" ۔

"ٹھیک "۔

"فون نے شنو کو اچھی طرح دیکھ لیا اور فون لاک ہو گیا۔ 

ارے واہ فون تو لاک ہو گیا۔ "شنو خوشی سے اچھل پڑی ۔

اب کھلتا ہے یا نہیں ۔دیکھتے ہیں" ۔اس نے اپنا چہرہ موبائل کے سامنے کیا۔

فون ایک سکنڈ میں کھل گیا

".

چلئے آپ کا کام تو ہو گیا" ۔شبو خوش ہو کر بولی۔ 

"ہاں ! چلو میں باورچی خانہ میں جاتی ہوں ۔پکانا ہے ناں" ۔وہ موبایل لیۓ اندر بھاگ گئ۔ 

"اماں آپ کو بھی اس طرح اسکے منہ پر نہیں کہنا چاہیے کہ وہ عجیب لگ رہی ہے" ۔شبو نے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔

"تو اور کیا کہتی میں ۔پرسوں رات میں باورچی خانہ میں گئ تو یہ ٹہری تھی۔پیلے کپڑوں میں ،اور کالا دوپٹہ لیۓ۔منہ پر وہی کاجل اور پاؤڈر کی لیپا تھوپی،اندھیرے میں اسکے پیلے کپڑوں کے سوا کچھ نظر نا آیا ۔میں تو ڈر کے مارے چیختے چیختے رہ گئ۔چڑیل نا ہو تو ۔

"اب جانے دو اماں "۔وہ بھی اٹھ گئ۔ 

شام میں شنو پھر شبو کو پکار رہی تھی۔

"کیا ہوا بھابھی۔"

"آے ہاۓ شبو ۔یہ موا موبائل تو مجھے پہچاننے ہی سے انکار کر رہا ہے"۔ 

"کیوں! کیا آپ نے اسے کوئ قرضہ دیا تھا کیا جو یہ آپ کو پہچان نہیں رہا۔" شبو کو مذاق سوجھا۔ 

"نہیں تو ۔میں تو قرضہ صرف لیتی ہوں دیتی کسی کو نہیں ۔"

ں ۔"

ا"چھا جیسی ساس ویسی بہو "۔

"ہائیں کیا بولی رے شبو تو ۔۔۔۔۔"اماں کے کان میں پڑی تو انہوں نے کان کھڑے کر لیۓ۔ 

"کچھ نہی اماں" ۔وہ بھولی بن گئ۔ 

"ہاے میرا فیس لاک ۔۔۔۔۔" شنو کی سوئ وہیں اٹک گئ ہو جیسے۔

"دیکھیں" ۔شبو نے موبائل انکے چہرہ کے سامنے کیا ۔مگر فون نہیں کھلا ۔ شبو نے کچھ دیر سوچا ۔ پھر انکے چہرہ کو غور سے دیکھا۔ 

"بھابھی ۔آپ چار گھنٹے سے کچن میں تھیں آپ کا سارا میک اپ بہہ گیا۔ اب صرف دور دور تک اسکے تھوڑے تھوڑے آثار نظر آرہے ہیں ۔جسکی وجہہ سے موبایل دھوکہ کھا گیا۔ وہ آپ کو پہچان نہیں پارہا "۔

"تو اب میں کیا کروں شبو" ۔شنو کی صورت رونے والی ہو گئ۔

 

بھابھی ۔آپ چار گھنٹے سے کچن میں تھیں آپ کا سارا میک اپ بہہ گیا۔ اب صرف دور دور تک اسکے تھوڑے تھوڑے آثار نظر آرہے ہیں ۔جسکی وجہہ سے موبایل دھوکہ کھا گیا۔ وہ آپ کو پہچان نہیں پارہا "۔

"تو اب میں کیا کروں شبو" ۔شنو کی صورت رونے والی ہو گئ۔ 

"جا !پھر سے ہولی کا میدان بنکر آجا ۔پہچان لے گا وہ" ۔اماں قریب بیٹھیں تھیں جل کر بولیں ۔تو شبو کے چہرہ پر بےساختہ مسکراہٹ آگئ ۔انکے ہولی کا میدان کہنے پر ۔

"سچ میں شبو "۔شنو حیران پریشان تھی۔ 

"جی !اب اسکے سوا کوئ چارہ بھی تو نہیں ۔ "

شنو" اچھا "کہہ کر اندر بھاگی۔ 

"شبو ۔تو بھی یہ فیس لاک لگا کر دیکھنا تھا" ۔اماں کی آواز آئ۔ 

"نہیں اماں ۔پاس ورڈ ہی اچھا ہے" ۔وہ شنو کے کمرے کی جانب دیکھتی ہوی بو لی.

اماں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔ وہ تو بس بہو کو ہو لی کا میدان بنتے دیکھ رہی تھیں ۔

*********


.

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گوگل اسسٹنٹ

رس گلہ کا گھپلا

دیا اور روشنی