دل کی آواز بھی سن لو
اب یہ ڈیجیٹل دور ہے تو دل تو دل دماغ بھی دشمنی نبھانے پر تلا ہوا ہے ۔ وہ کوئ اور زمانے ہوتے تھے جب کہتے تھے کہ کبھی کبھی دل کی بھی سن لینی چاہیۓ۔ اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ دماغ کو بھی اپنی انا کی پڑی ہے ۔ اور اپنی انا کے مارے بندے کو مکمل طور پر پاگل بنانے پر تلا ہے ۔
آپ کو لگ رہا ہوگا کہ ہم بے پر کی ہانک رہے ہیں ۔ نہیں جناب ۔ ہم یونہی بک بک کبھی کرتے نہیں ۔ اور فضول باتیں کرنے کی عادت بھی نہیں ۔ ہم تو اس ڈیجیٹل دور میں بڑھ رہی نفسیاتی بیماریوں کو لیکر پریشان ہیں ۔ نفسیاتی بیماریوں نے ہر گھر میں ڈیرا جما لیا ہے ۔ تقریبا ہر گھر میں ایک نفسیاتی مریض موجود ہے ۔ اور اس دماغی بیماری کے پیچھے دماغ کا ہی ہاتھ ہو گا اور کس کا ہوگا ۔۔
اب تک دل منمانی کرتا تھا اور بدنام ہو تا تھا ۔ لیکن اب دماغ صاحب بھی میدان میں آگۓ ہیں ۔ وہ وہ حرکتیں کرہے ہیں یا بندے سے کروارہے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔
کبھی یہ دماغ مریض سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ دیکھو فلاں نے تمہارے بارے میں کچھ غلط کہا اور اس بندہ نے فورا ہی مان لیا ۔
کبھی یہ بڑے بھولے بن کر مریض کو کہتے ہیں کہ آخر تم نے زندگی میںکیا ہی کیا ہے ۔ تم ایک ناکارہ شخص ہو ۔ تم دنیا کے انتہائ فضول انسان ہو ۔ تمہیں تو مرجانا چاہیۓ۔ اور بندہ سچ مچ مرنے کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے ۔ ارے کوئ دو تھپڑ اس دماغ کو ہی ماردے ۔ تاکہ چین آۓ۔
کبھی یہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب بھی دیتا ہے ۔ یعنی آپ ہی تیل آپ ہی گھی کے مصداق ۔کپھی آپ نے دیکھا یا سنا کہ بندہ خود ہی کوئ بات سوچتا ہے اور خود ہی اس کا جواب بھی دے رہا ہوتا ہے ۔ خلل تو دماغی ہے ۔ دل تو یونہی بدنام ہے بیچارہ ۔
آپ کادماغ آپ ہی کے خلاف جا رہا ہوتا ہے اور آپ اکثر سمجھ نہیں پاتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ دماغ آپ کو کنٹرول کرنے لگا ہے ۔ وہ آپ کو اس حد تک کنٹرول کرتا ہے کہ آپ خود کو ہی پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں ۔کہ آپ کون ہیں ۔
آپ وہی کہتے ہیں جو دماغ آپ سے کہلواتا ہے۔ ۔
وہ آپ کو وہ بناتا ہے جو کبھی آپ تھے ہی نہیں ۔
آوہ آپ کو خوامخواہ رونے پر مجبور کرتا ہے اور آپ رونے لکتے ہیں ۔
وہ آپ کو ہنسنے کو کہتا ہے اور آپ بے موقع ہنسنے لگتے ہیں ۔
وہ آپ کے موڈ کا ستیاناس کر دیتا ہے ۔ آپ کا موڈ آن آف ہوتا ہے تو اس کے پیچھے یہی ۔۔یہی دماغ ہے ۔
یہ دماغ کا فتور نہیں تو اور کیا ہے کہ آپ وہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو آپ کرنا نہیں چاہتے ۔
آپ وہ کہتے ہیں جو آپ کہنا نہیں چاہتے ۔
آپ وہ سنتے ہیں جو آپ بالکل سننا نہیں چاہتے ۔
وہ آپ کو ان کہی باتیں بتاتا ہے ان سنی باتیں سناتا ہے ۔ (دل تو چاہتاہے چار باتیں ہم بھی سنادیں ۔ دل کو ٹھنڈک ہی پڑ جاۓ۔ )
آخر یہ چاہتا کیا ہے ۔ دماغ ہے تو دماغ کی طرح رہے ۔ دل کی طرح ہاتھوں سے نکلا کیوں جا رہا ہے ۔
لوگ جن بھوت سمجھ کر عاملوں کے پاس جانے لگتے ہیں ۔ کسی کو پتا نہیں کہ ساری کارستانی دماغ صاحب کی ہے ۔ وہ جن بھوت بھگانے لگ پڑتے ہیں ۔ مریض کو الٹا لٹکا کر مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ کوئ جن ہو تو بھاگے بھی ۔ یہاں تو دماغ ہی سب سے بڑا بھوت بنا ہوا ہے ۔ اس کو کوئ الٹا لٹکا کر سیدھا کرے تو مانیں ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ کہنا کیا چاہتی ہیں ۔تو کہنا یہ ہے کہ
آآپ کہہ رہے ہیں کہ دل کی بھی سن لو تو دل کی تو سن لی اب تھوڑا دماغ کی بھی سن لیں ۔ وہ کیا چاہتا ہے ۔
وہ چاہتا ہے کہ ذرا اس کے ناز نخرے سہے جائیں ۔ اس کا خیال رکھا جاۓ۔ شعر شاعری پر دل ہی قابض ہے کچھ دماغ پر بھی شعر شاعری کرلیں ۔ کیا پتا وہ خوش ہوجاۓ۔
دل کی تو سنتے ہی رہتے ہیں دماغ کو بھی کچھ اہمیت دے جاۓ۔ آخر سارے جسم کا کنٹرول اس دماغ کے پاس ہی تو ہے ۔ دماغ نے ہی سب کنٹرول کرنا ہوتا ہے اور یہ ہے کہ خود ہی آؤٹ آف کنٹرول ہوا جا رہا ہے ۔ اللہ خیر کرے ۔
اب بھلا شاعر کو کیا پڑی تھی جو یہ فرما گۓ۔
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
اب دماغ کو غصہ تو آنا تھا نا۔
اس نے کیا کیا تھا سب کچھ دل نے کیا تھا ۔ وہ ہی سینۂ سے نکل گیا تھا ۔ وہی پاگل ہوا تھا ۔ دماغ تو اس وقت سکون میں ہی تھا ۔ یہ دل ہی تو تھا جو بے قابو ہو کر محبوب کی گلیوں کی خاک چھانتا پھر رہا تھا ۔ دماغ تو اپنی جگہ پر ہی تھا ۔ پھر اس بیچارے کو ناحق عشق کے معاملے میں گھسیٹا گیا ۔ اس نے احتجاج تو کرنا تھا ۔ وہ اب یوں انتقام لے رہا ہے ۔ آپ کو گھن چکر بنا کر رکھ دیا ہے ۔ ڈاکٹر پریشان ۔ عامل حیران ۔ کہ آخر اس مرض کی دوا کیا ہے ۔
ددواتو بس ایک ہی ہے خوش رہا جاۓ ۔ اب کیسے خوش رہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے دماغ کا نہیں ۔بس اتنا سمجھ لیں کہ آپ کو دماغ کو خوش رکھنے کے لیۓ خود خوش رہنا سیکھ لینا ہے ۔
دل کی بہت سنلی اب دماغ کی خبر گیری کر لیا کریں ۔
دماغ کے ڈاکٹر بھی ہوتے ہیں ۔ جائیں اور اپنا علاج کروائیں ۔ ورنہ دماغ آپ کا علاج کر دے گا۔ ۔ ہاں نہیں تو ۔۔۔
ااف ۔ کچھ زیادہ ہو گیا کیا ۔ دل دماغ دل دماغ ۔۔۔کرتے کرتے جانے کیا کیا لکھ بیٹھے ۔اور کیا کیا سنا بیٹھے ۔ ارادہ تو نہیں تھا مگر دل دماغ خاموش کہاں بیٹھتے ہیں ۔ کچھ نا کچھ لکھنے کو اکساتے رہتے ہیں ۔۔لکھنا بھی ایک خواری ہی ہے بس ۔دل پر ہزاروں اشعار ہوں گے اور دماغ نے ایک بھی یاد نہیں رکھا ۔ اس میں کس کا قصور ہے ۔ ظاہر ہے ہمارا ۔ کیونکہ اب دماغ پر کوئ الزام دینا نہیں چاہتے کہ جانے کب انتقاماً ہمارے ہی خلاف جاۓ۔ اس لیۓ دل سے بنے نا بنے دماغ سے بنائیں رکھیں فائدہ میں رہیں گے ۔
ختم شد
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں