گوگل اسسٹنٹ "اوکے! گوگل پلیز ٹیل می دا سپیللنگز آف ۔۔۔۔۔" وہ اپنے فون پر گوگل اسسٹنٹ لگائ بات کر رہی تھی " ۔ہیلو 'ہیلو ' اوکے! گوگل " "اے شبو !"تو یہاں بیٹھی کس سے بات کر رہی ہے "۔اماں نجانے کب سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ گاؤں کے اس پسماندہ سے علاقے کے ایک گھر میں وہ اپنا اسمارٹ فون کھولے بیٹھی تھی ۔اوور اب ٹائیپنگ سے بچنے کے لیۓ اس نے گوگل اسسٹنٹ لگا لیا تھا ۔ ۔یہ اسکی بدقسمتی تھی کہ اماں کے سامنے لگا لیا تھا۔اور ایسا لگرہا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو نے والا تھا۔ "ارے اماں۔میں تو گوگل سے بات کر رہی تھی" " ۔وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ یہ موا" گوگل" کون ہے ۔جس سے پٹر پٹر باتیں کر رہی ہو "۔وہ روٹی پکاتے پکاتے پکاتے اسکے سر پر پہنچ گی تھیں ۔ "ارے اماں' ہمیں اگر کچھ بھی معلوم کرنا ہو تو گوگل مدد کرتا ہے" ۔اس نے آسان لفظوں میں سمجھانا چاہا ۔ "مطلب' اسکو کام دھندہ نہیں ہے اور"...." تم کو بھی نہیں "۔"یہ تو پتا لگ رہا ہے" ۔ "اففوہ اماں
رس گلہ کا گھپلا ۔۔۔۔۔۔ مزاحیہ تحریر سچ سچ بتائیں ۔کس کس کو رس گلہ پسند ہے۔ سب کو ؟ ویری گڈ ۔اور بنانا کس کس کو آتا ہے۔ ۔ہائیں یہ خاموشی !کیا کسی کو بھی بنانا نہیں آتا۔خیر ہمیں کونسا بنانا آتا ہے۔اس دن ہماری لاپرواہی کی بدولت دودھ پھٹ گیا۔دودھ کیا پھٹا پنیر سے بنائی جانے والی تمام ڈشس ہمارے ناقص ذہن میں ابلنے لگیں۔سب سے پہلے ہمیں رس گلہ کا خیال آیا۔یقین کریں رس گلہ چیز ہی ایسی ہے ۔اسکا خیال نہ آتا تو کس کا آتا؟بس اب لگ گۓ رس گلہ بنانے کی ترکیبیں کھنگالنے،گوگل پر،گوگل بھی تو ایسے ہی وقت کام آتا ہے۔گوگل نہ ہوا عمروعیار کی زنبیل ہو گیا جو چاہو نکال لو،خیر گوگل پر رس گلہ بنانے کی ترکیبیں وارد ہوئیں۔سب سے پہلے ایک حضرت شیف جیسا حلیہ بناۓ ہوۓ آۓاور شروع ہوگۓلیکن ہمیں انکا انداز پسند نہیں آیا ۔کوئ بھلا شیف کوٹ پہن کر شیف تھوڑی نہ بن جاتا ہے۔ہم نے دوسری محترمہ کو ٹرائ کیا وہ دیکھنے میں اچھی لگ رہی تھیں۔اب جو ہمیں اچھا لگا ہم نے اسے ہی دیکھنا تھا۔چلیے اب انہوں نے اپنا طریقہ شروع کیا اور ہم نے اپنا۔ہمارا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ سنو سب کی لیکن کرو وہی جو اپنا دل کہے۔رس گلہ کی ترکیب کیا
دیا اور روشنی صدیوں سے تاریکی اور دیا ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔جہاں تاریکی ہے وہاں دیا ،اس تاریکی ،اس اندھیرے کو دور کرنے کےلیے موجود رہتا ہے۔گویا دیا اور تاریکی میں اک قسم کی جنگ ہے۔اس جنگ میں کبھی تاریکی کی جیت ہوتی ہے اور کبھی دیا کی۔گو دیا زمانے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا ہوا بہت آگے نکل چکا ہے۔اور اسکی شکلیں مختلف ہیں۔لیکن اسکاکام وہی ہے جو کل تھایعنی تاریکی کو دور کرنا،اجالا و روشنی پھیلانا،دیا کی اہمیت اس سے بھی لگای جاسکتی ہے کہ جب جنگل میں ہر طرف گھپ اندھیرا ہو تاریکی ہر سمت ہو وہاں بہت دور کہیں کسی جھونپڑی یا کٹیا میں اک دیا روشن ہو تو مسافر کو راہ سجھای۶ دیتی ہے۔وہ ٹمٹماتے دیے۶ کی مدھم سی ہی سہی روشنی میں اپنی راہ لیتا ہے۔اور بلآخر منزل پر پہنچ جاتا ہے۔اس طرح دیا تاریک راہوں میں ایک راہگیر کو منزل کا پتا دیتا ہے۔ اسی طرح اگر ہم ایک انسان کو مسافر سمجھ لیں چونکہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔اور انسان کو اس دنیا سے اس دنیا تک کا سفر طے۶ کرنا ہے۔تو انسان کو یہ سفر کتنا دشوار گزار لگتا ہے۔ہمیں پتا نہیں یہ سفر کب ختم ہو جاے۶،اور ہمیں یہ بھی پتا نہیں کہ ہمارہ یہ سفر کب ختم ہو جاے۶
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں