گالی

 "کہاں گئ او بے غیرت ۔۔۔۔۔صفدر صاحب نے چیخ کر اسے پکارا تھا ۔وہ نماز میں تھی ۔ ورنہ اتنے پکارنے کی نوبت ہی نا آتی ۔ 

میں پوچھوں کہاں مر گئ را۔۔۔۔وہ ۔ایک اور گالی اپنے منہ سے نکال چکے تھے ۔اس نے جلدی سے سلام پھیرا تھا ۔ اور بھاگی بھاگی باہر آئ تھی ۔ صفدر صاحب  کڑکڑاتا سفید جودھپوری سوٹ پہن کر تن کر کھڑے تھے ۔ تلوار مار مونچھوں کے ساتھ وہ ایک روایتی زمیندار لگ رہے تھے ۔ وہ ان کے سامنے ڈرتے ڈرتے آئ تو ایک خونخوار اور نفرت بھری نظر اس پر ڈالتے وہ بولے تھے ۔ 

"جوتے کہاں ہیں میرے ۔ جب باہر جانا ہوتا ہے نا  جوتے ہی اپنی جگہ پر  ہو تےہیں ۔نا تم ۔ آخر کر کیا رہی تھیں تم۔ ۔"

"میں ابھی لاتی ہوں ۔ بارش سے ادھر جوتےخراب نا ہوں اس لیۓ اندر لے جاتی ہوں ۔" وہ انہیں  توجیح دیتی دوبارہ اندر بھاگی تھی۔

واپس آئ تو اس کے ہاتھ میں دونوں جوتے تھے ۔جسے اس نے زمین پر رکھا تھا ۔ 

"اسے احتیاط کرنا کہتے ہیں ۔ جوتے تو ابھی بھی گندے ہیں ۔‌صا ف کر و اسے ۔‌"وہ کرخت لہجہ میں بولے تو وہ برش لانےکے لیۓ اندر جا نے لگی ۔‌

ا"اے ۔ ہڈ حرام عورت ۔ یہاں بیٹھ ۔‌"انہوں نےہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور خود آگے بڑھے ۔ 

اس کے سر پر موجود سفید دوپٹہ کھینچا تھا ۔

"اب جلدی سے اسے  صاف کر ۔ وقت نہیں ہے برش سے کرنے کا ۔" وہ کرسی پر خود بیٹھ گۓ تھے ۔ ہاتھ میں فون پکڑا تھا ۔ دونوں جوتے پہن لیۓ تھے ۔‌اور اب پیر اس کے سامنے کر وفر سے رکھے اسے جوتے صاف کرنے کا حکم دے چکے تھے ۔ 

اس نے اپنے نماز کے سفید دوپٹے کو دیکھا ‌اور خاموش ہو گئ۔‌اور جلدی جلدی جوتوں کو صاف کرنے میں لگی رہی ۔ اگروہ دیر کرتی تو صفدر صاحب سے بعید نہیں تھا کہ وہ انہی جوتوں سمیت اس پر حملہ کرتے۔

اس نے جوتوں کو جلدی جلدی صاف کیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی صفدر حسین اٹھے تھے۔ 

"میں آج رات دیر سے آؤں گا ۔ دوستوں کی محفل جمی ہوئ ہے ۔دیر ہو سکتی ہے ۔ "

وہ فخریہ کہتے اب باہر نکل گۓ تھے ۔‌اورمریم اپنی زخمی روح کے ساتھ  زیست کی بڑھتی نا قابل برداشت اذیتوں کے ساتھ تنہا رہ گئ تھی ۔ ایسی تنہائیوں  کی وہ عادی تھی ۔‌

******

 مریم  اور صفدر حسین کی شادی کو دس سال ہو گۓ تھے ۔ اور ان دس سالوں میں مریم ہمیشہ اپنے اندر وہ کمی وہ خامی ڈھونڈنے میں لگی رہی کہ آخر صفدر اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرتے ہیں ۔ وہ ایک خوب صورت سلیقہ شعار پنج وقتہ نمازی عورت تھی ۔ اور عزت اور پاکیزگی سے زندگی گذارنے پر یقین رکھتی تھی۔ اولاد نہیں ہو ئ تھی تو یہ بھی صفدر صاحب کی مرضی تھی کہ وہ ابھی بچے نہیں چاہتے تھے اور ان کی مرضی کا احترام کرتے کرتے دس سال جس کرب و اذیت میں گذر رہے تھے یہ مریم ہی کا دل جانتا تھا ۔ ۔اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اس کے اندر جو خوبیاں ہیں وہی صفدر کو کھٹکتی ہیں ۔ مریم کو صفدر کی دادی بیاہ لائ تھیں ۔ صفدر کی ماں تو بچپن میں مر گئ تھی جبکہ والد کو مرے ابھی کچھ سال ہو ۓ تھے ۔ایک نیک اور اچھے خاندان کی لڑکی کو بہو بنا  کر صفدر کی دادی نے اپنا فرض پورا کر لیا تھا اور دو تین سال میں ہی داغ مفارقت دے گئ تھیں ۔ 

جب تک دادی زندہ تھیں صفدر کا رویہ مریم کے ساتھ بہتر رہا تھا لیکن ان کے مرنے کے بعد وہ بالکل آزاد پرندہ کی مانند ہو گۓ تھے  ۔‌عزت  کے سوا نہوں  نے مر یم کو سب کچھ دیا تھا ۔ بات بات پر گالی گلوج ان  کی عادت بن گئ تھی  اور مریم اپنے آنسو اندر اتارنے کی کوشش کرتے کرتے تھکتی جا رہی تھی ۔

وہ نماز پڑھتی انہیں غصہ آتا تلاوت کرتی وہ اس پر چلاتے ۔ غرض اس کی ہر اچھی عادت پر بھی وہ اسے گالیوں سے نوازتے ۔اور‌مریم ایک اچھے خاندان کی بیٹی ہو نے کے ناطے ان  کی جائز ناجائزہر بات  پر بس صبر کر رہی تھی ۔ لیکن کب تک ۔۔۔۔

*********

آج کے سورج نے  طلوع ہو نے کے ساتھ  ہی بے انتہا حبس دھوپ میں شدت اور تمازت کا اعلان کیا تھا ۔ آج مر یم بھی اپنے روزمرہ کے کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی ۔ صفدر حسین ابھی نہیں آۓ تھے اور وہ ان کا انتظار ہی کر رہی تھی ۔‌دو بجتے بجتے دھوپ میں اتنی شدت آ چکی تھی کہ اب آنکھوں  کو چبھنے لگی تھی ۔ وہ آنگن سے ہٹ کر اب برامدے میں بیٹھی تھی تبھی اس نے دیکھا صفدر حسین آنگن کو پار کرتے برامدے میں آ رہے تھے ۔ گرمی سے چہرہ اور   آنکھیں سرخ   لگ رہی تھیں۔‌مریم جلدی جلدی ان کے لیۓ کھانا نکالنے لگی ۔ 

"یہ روٹی ٹھنڈی کیوں ہے اور سالن میں نمک آنکھیں بند کر کے ڈالا تھا ۔ "

وہ پہلا نوالہ منہ میں لےکر ہی بڑبڑانے لگے تھے ۔ مریم خاموش کھڑی رہی ۔ 

"پتا نہیں دادی اماں نے کس جاہل خاندان سے ناطہ جوڑ دیا میرا ۔ اور بیوی تو ایسی ملی ہے کہ دل زندہ گاڑ ڈالنے کو چاہتا ہے ۔" 

"نا کھانا پکانے کا سلیقہ نا پہننے اوڑھنے کا سلیقہ ۔ بس ہر وقت نیک پروین بنی رہے گی ۔ پتا نہیں کونسے گناہ کی سزا ملی مجھے ۔"انہوں‌نے نوالہ واپس رکھا  بلکہ پٹخا ۔ 

ا"اب دیکھ کیا رہی ہے بے غیرت کیا باپ نے اتنا بھی نہیں سکھایا کہ شوہر کو اگر کھانا پسند نا آۓ تو اسے  کچھ دوسرا پکا کر دےدیتے ہیں ۔ "

آ"آپ کو میرے باپ تک جانے کی کوئ ضرورت نہیں۔" مریم کے ضبط کا پیمانہ آج ٹوٹ گیا ۔‌

"تو مجھے سکھاۓ گی کہ مجھے کیا کرنا چاہیۓ ۔کیا کہنا چاہیۓ۔" وہ آپے سے باہر ہو گۓ ۔ زبان پرآئ مغلظات ان کی گندی سوچ کو ظاہر کر رہی تھیں  اور ہاتھ ان کی تربیت پر سوالیہ نشان بنا رہے تھے ۔ 

وہ مسلسل  مار مار کر اسے ادھ موا کرچکے تھے مگر جیسے دل کو تسلی نا ہو ئ تھی اور ایک لات اس کی کمر پر مار کر ماں کی بہن کی گالیاں دیتے باہر چلے گۓ تھے ۔ 

مریم نے اپنے پیچھے انہیں جاتے اور سورج کو مغربی سمت ڈوبتے دیکھا تھا ۔ اور اسے ایسا لگا اس کی زندگی کے سورج کو بھی ایک سمت مل گئ تھی ۔ وہ اٹھی تھی ۔ اپنا سامان لیۓ اب وہ اپنے گاؤں کو جانے والی بس میں بیٹھ گی تھی ۔ اس نے سوچ لیا تھا اب وہ کوئ گالی نہیں سنے گی ۔ 

***********

وہ گاؤں واپس آچکی تھی اور اب اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ رہنے لگی تھی ۔ اس کے بابا یہاں دعا دم وغیرہ کرتے تھے ۔ نیک تھے اور ان کی نیکی کی وجہہ سے آس پاس کے گاؤں سے بھی کئ خواتین مرد ان کے پاس آتے تھے ۔ اب بابا کے انتقال کو دو سال ہو گۓ تھے ۔‌لیکن کچھ لوگ ابھی بھی ماں سے ملنے آ جایا کرتے تھے ۔‌

ایسے ہی قریب کے گاوں کی ایک عورت  مریم سے  ملی تھی ۔ وہ  پچاس سالہ عورت  اپنی عمر کے حساب سے کئ گاؤں والوں کے رازوں سے واقف تھی ۔اور یوں ہر بات  بتاتی تھی کہ  ہر چیز اس کے سامنے وقوع پذیر ہوئ ہو جیسے ۔

ایک دن  بات کرتے کرتے اس نے مریم کو ایک ایسے راز سے واقف کروایا تھا کہ مریم کے دل پر ایک قیامت گذر گئ تھی اور وہ کئ دن تک کسی سے بات کرنے کے قابل نہیں رہی تھی ۔ 

*********

 آج پورے تین ماہ بعد صفدر حسین کو بالآخر اپنی بیوی کی یاد آہی گئ تھی ۔ ایک بلامعاوضہ چوبیس گھنٹہ میسر  ااگر کوئ باندی ہو تی ہے تو وہ بیوی ہی تو ہوتی ہے ۔ جسے کوئ معا وضہ نہیں ملتا نا تعریف ۔ ہاں  اگر وہ گھر کے کام نا کرے تو معتوب ضرور ٹہرتی ہے ۔ 

صفدر حسین مریم کے اس چھوٹے سے گھر کے آنگن میں۔ کھڑے تھے ۔ مریم نے انہیں اندر آنے  کے لیۓ نہیں کہا تھا ۔ 

"کتنے دن رہنا ہے اب گھر چلو اور گھر سنبھالو ۔ اسے دیکھ کر ان کی رعو نت  دوبارہ لوٹ کر آئ تھی ۔

"گھر ۔۔کونسا گھر ۔جہاں چوبیس گھنٹے ایک عورت پر گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ۔ اور جہاں گالی بھی  تین وقت روٹی کے ساتھ مفت دی جاتی ہے ۔ ایک عورت کو روٹی کی حاجت ہو نا ہو عزت کی حاجت ضرور ہو تی ہے ۔ لیکن  زبان کی نوک پر گالی رکھنے والے مرد کبھی نہیں سمجھ سکتے صفدر صاحب کے عورت دو وقت کی روٹی کی محتاج نہیں ہو تی ۔ وہ اگر آپ کی گالیاں برداشت کر رہی ہو تی ہے تو صرف اور صرف عزت کی خاطر کہ اس سنگدل معاشرہ میں ایک طلاق شدہ  عورت کو بھی گالی کی طرح لیا جاتا ہے ۔ اور طلاق بھی تو ایک گالی ہی ہو تی ہے جس سے بچنے کے لیۓ عورت اتنی گالیاں خاموشی سے سن لیتی ہے ۔‌سہہ لیتی ہے ۔ "

مریم نے آج اپنے اندر کی اس عورت کو جگا دیا تھا جو  نام نہاد عزت کی خاطر بے عزت ہو رہی تھی ۔ 

"صفدر صاحب ۔ کبھی آپ نے سوچا ۔ کہ عورت صرف بیوی نہیں ہوتی وہ کسی کے گھر کی رحمت بھی ہو تی ہے ۔ اور کبھی اس کے پاؤں کے نیچے جنت بھی ہو تی ہے اور ایسی عورت کو گالی میں یاد رکھنا ایک مرد کی بد بختی ہی تو ہے کہ اس نے ایک بیٹی اور ماں کے وقار کا خیال نہیں کیا ۔‌

آج مریم صرف بولنا چاہتی تھی ۔ اور وہ  بول رہی تھی ۔ صفدر صاحب کو آج سننا تھا اور صرف سننا ۔ وہ بالکل گنگ ہو گۓ تھے ۔

"اور ایک بات کہو ں صفدرصاحب  ۔ مجھے قریب کے گاؤں کی ایک عورت نے کیا کہا ۔ جو آپ کے والد کو بہت اچھی طرح سے جانتی ہے" ۔‌اس بات پر صفدر حسین کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے ۔ ۔اور انہوں نے اپنے ہاتھ باندھ لیۓ ۔‌آج انکشاف کا دن تھا ۔ 

"صفدر حسین صاحب. ‌ اس عورت نے کہا جو مرد عورت کو اپنی گالیوں میں استعمال کرے وہ ۔۔۔..."مریم رکی تھی۔ صفدر اپنے چہرہ پر آتے پسینے کوبار بار  پونچھ رہے تھے ۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا پسینہ ان کے  سارے جسم سے پھوٹنے لگا ہو۔

"اس کا نسب مشکوک ہوتا ہے ۔ یعنی جو عورت کو گالی دیتا ہے ۔  وہ ۔۔وہ ۔۔۔ حرامی ہو تا ہے ۔" مریم نے رک رک کر کہا تھا ۔اور  مریم کا یہ آخری  وار  تھا جس پر صفدر حسین کو ڈھیر ہی ہونا تھا ۔ انہوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں ۔ وہ نا تردید کر سکے اور نا مریم کو کوئ گالی دے سکے ۔ 

اب وہ کیا گالی دیتے کہ ان کی اپنی ذات ایک گالی کی ذد میں آگئ تھی ۔ 

ختم شد ۔



 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

گوگل اسسٹنٹ

رس گلہ کا گھپلا

دیا اور روشنی