اشاعتیں

جولائی, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

پیراسائٹ

 وہ اس وقت کلاس روم میں بلیک بورڈ کے قریب کھڑی تھی ۔ بایو کی ٹیچر ہو نے کے ناطے آج اسے پیرا سائیٹ پر اپنی کلاس کے طالب علموں کو سمجھانا تھا ۔  اس نے چاک لیا اور اپنے مضمون کے متعلق بورڈ پر جلدی جلدی لکھنے لگی ۔  لیکن لکھتے لکھتے اس کی اپنی رو بہک گئ ۔  اسے یاد آیا کہ آج مہینہ کا بیسواں دن ہے اور اس کی تنخواہ کا کافی خرچہ اس کی اپنی دوائیوں پر نکل چکا ہے ۔ وہ ایک گورنمنٹ ٹیچر تھی ۔ لیکن اس کے شوہر کی بے روزگاری بلکہ کام چوری کی بدولت اس کی  معقول تنخواہ بھی کم پڑتی جارہی تھی ۔  وہ بورڈ پر لکھنے لگی پیراسائیٹ ۔۔۔۔ ۔  اسے یاد آیا ۔ اس کی جب سے شادی ہو ئ تھی اس کے کام چور شوہر نے ایک روپیہ بھی کمایا نہیں تھا بلکہ اس کی اپنی تنخواہ پر انحصار کرتا تھا ۔۔‌جب پہلا بچہ ہوا تب سے لیکر پانچویں بچے تک ۔وہ ویسا ہی تھا‌۔‌ اس کی اس عادت ا ور گھر کے بڑھتے اخراجات ۔۔وہ فکر  میں گھلتی  ذیابطیس کا شکار ہو گئ۔ ۔چونکہ  ذیابطیس مرض کی اصل وجہہ وہ گھریلو نا چاقیاں  تھیں جو شوہر کے بے روزگار ہونے سے آۓ دن ہو تی رہتی تھیں ۔‌بے روزگار شوہر اور  بلا کا فضول خرچ ۔۔۔تو ساری آفت تو اس کے سر ہی آنی تھی۔‌ گھر کا کرای

گالی

 "کہاں گئ او بے غیرت ۔۔۔۔۔صفدر صاحب نے چیخ کر اسے پکارا تھا ۔وہ نماز میں تھی ۔ ورنہ اتنے پکارنے کی نوبت ہی نا آتی ۔  میں پوچھوں کہاں مر گئ را۔۔۔۔وہ ۔ایک اور گالی اپنے منہ سے نکال چکے تھے ۔اس نے جلدی سے سلام پھیرا تھا ۔ اور بھاگی بھاگی باہر آئ تھی ۔ صفدر صاحب  کڑکڑاتا سفید جودھپوری سوٹ پہن کر تن کر کھڑے تھے ۔ تلوار مار مونچھوں کے ساتھ وہ ایک روایتی زمیندار لگ رہے تھے ۔ وہ ان کے سامنے ڈرتے ڈرتے آئ تو ایک خونخوار اور نفرت بھری نظر اس پر ڈالتے وہ بولے تھے ۔  "جوتے کہاں ہیں میرے ۔ جب باہر جانا ہوتا ہے نا  جوتے ہی اپنی جگہ پر  ہو تےہیں ۔نا تم ۔ آخر کر کیا رہی تھیں تم۔ ۔" "میں ابھی لاتی ہوں ۔ بارش سے ادھر جوتےخراب نا ہوں اس لیۓ اندر لے جاتی ہوں ۔" وہ انہیں  توجیح دیتی دوبارہ اندر بھاگی تھی۔ واپس آئ تو اس کے ہاتھ میں دونوں جوتے تھے ۔جسے اس نے زمین پر رکھا تھا ۔  "اسے احتیاط کرنا کہتے ہیں ۔ جوتے تو ابھی بھی گندے ہیں ۔‌صا ف کر و اسے ۔‌"وہ کرخت لہجہ میں بولے تو وہ برش لانےکے لیۓ اندر جا نے لگی ۔‌ ا"اے ۔ ہڈ حرام عورت ۔ یہاں بیٹھ ۔‌"انہوں نےہاتھ کے اشارے